نیا پاکستان اور لوگوں کی بے پناہ امیدیں


انتخابات کے نتیجے میں کچھ کی ہار ہوتی ہے اور کچھ کی جیت۔ الیکشن 2018 ء میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پاکستان تحریک ِ انصاف کوملک بھر میں کامیابی ملی اور وہ وفاق میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ پی ایم ایل (ن)، پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی، ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں کو شکست ہوئی۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے حماقتوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ قبل از انتخابات پیش آنے والے واقعات اور انتخابات کے بعد سرزد ہونے والی بے قاعدگیاں انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہارنے والی تمام جماعتوں نے دھاندلی کی دہائی دینا شروع کردی ہے۔ عمران خان نے انتخابات کے انتظامی امور کی نگرانی کرنے والوں کا ساتھ نہ دے کر، اور جانچ پڑتال کرنے کے اپوزیشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔

شکست کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حوصلے اور بڑے دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں گزشتہ انتخابات میں کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔ چنانچہ اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہوا ہے، کوئی نئی بات نہیں۔ انتخابات سے پہلے قومی بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی اسی طرح حقیقی تھی جس طرح پچیس جولائی کا نتیجہ۔ کانٹے کے مقابلوں میں کلین سویپ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن پی ٹی آئی نے متاثر کن اکثریت حاصل کرلی۔ پول سرویز نے بھی اس کی نشاندہی کردی

تھی۔ لیکن پھر 2013 ء کے انتخابات کی بھی ایسی ہی پیش گوئی تھی، اور ان کا نتیجہ بھی اس کے عین مطابق آیا تھا، لیکن اُس وقت پی ٹی آئی نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
پاناما کے بعد شریفوں ( اور ان کے ساتھ پی ایم ایل۔ ن کو ) کو بدعنوان قراردیا گیا۔ نوازشریف اور مریم نواز کو دی گئی سز ا فیصلے میں جواز کے فقدان اور پیش کی گئی شہادت کے ناقص معیار کی وجہ سے تنقید کی زد میں آتی رہے گی۔ لیکن جو لوگ نوازشریف کو بدعنوان اور پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ سمجھتے تھے، اُنہیں کسی قانونی موشگافی کی ضرورت نہیں۔

نواز شریف نے اپنی دولت کا ثبوت دینے سے انکار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قانون کی عدالت میں یہ دلیل وزن رکھتی ہو، لیکن عوام کی عدالت میں نہیں۔ اس کے مقابلے پر دی جانے والی دلیل یہ ہے کہ نواز شریف کو اس لیے اقتدار سے ہٹایا گیا کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل نکلے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ نواز شریف کی سیاسی کامیابی کی وجہ اسی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ حمایت ہے۔ چونکہ اس مرتبہ یہ حمایت ہاتھ سے جاتی رہی، اس لیے وہ الیکشن ہار گئے۔ اس بیانیے کے مطابق شکست کی وجہ ووٹروں کا رجحان نہیں تھا۔

2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے ایسا ماحول قائم ہوچکا تھا جس میں عام ووٹر پی ایم ایل (ن) کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا تھا۔ ہمدردی، یا اشتعال کے جذبات(کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک مقبول لیڈر کو جیل میں ڈال دیا گیا) ووٹ کی صورت نہ ڈھل سکے۔ پنجاب نے اُسی طرز ِعمل کا مظاہرہ کیا جو اس سے روایتی طور پر منسوب کیا جاتا ہے : متوقع فاتح کا ساتھ دینا۔

ہم میں سے وہ افراد جو 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک اور غیر قانونی طریقوں سے نواز حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مخالفت کرتے تھے، آج ا س سے مختلف موقف نہیں اختیار کرسکتے ہیں۔ جن افراد کو انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہے، وہ درخواست دائر کریں۔ اگر کچھ جماعتوں کا خیال ہے کہ دھاندلی اتنی منظم تھی کہ روایتی جانچ کے طریقوںسے اس کا کھوج لگانا ناممکن ہے، تو پھر اُنہیں اپنا وقت پارلیمنٹ میں گزار کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فعالیت بڑھانے اور انتخابی عمل کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہروہ شخص جو جمہوریت پسند ہونے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ ”جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ‘‘ کے نام پر ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلانے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ تاہم اداروں کی فعالیت میں کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا، یا ان کے طریق ِکار پر سوال اٹھانے کا مطلب ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن نتائج اور فیصلوں کو تسلیم نہ کرنا دوسری بات ہے۔ پی ایم ایل (ن) نے ابتدائی طور پر نتائج کو مسترد کرنے کے موقف سے قدم پیچھے ہٹا کر بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ لوگوں نے الیکشن میں پی ٹی آئی کی حمایت کی ہے۔ چنانچہ اب آگے چلنا چاہیے۔

انتخابات میں تبدیلی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ امید اور حکمرانی کا جواز وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ منتخب شدہ نمائندوں پر منحصر ہے کہ وہ امید کو سامنے رکھتے ہوئے، اور حق ِ حکمرانی کو استعمال کرتے ہوئے بہتری کے لیے جہاں ضرورت ہو، سخت فیصلے کریں۔ چاہے آپ کو عمران خان اور اُن کے ”نیا پاکستان ‘‘ کے تصور پر یقین ہے یا نہیں، آپ کو ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ عمران خان کی کامیابی ایک عظیم کہانی ہے۔ ایک کامیاب کرکٹ ہیرو سے لے کر بائیس سال تک سیاسی خارزاروں میں جاں گسل صبر کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے ملک کا وزیر ِاعظم بننا ایک طلسمی داستان سے کم نہیں۔

لیکن طلسمی الف لیلہ اس بیان پر ختم ہوتی ہے۔ ”اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘، لیکن حقیقی زندگی میں جدوجہد جاری رہتی ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے عمران خان نے گزشتہ دو عشروں کے دوران بہت سے پینترے بدلے ہیں۔ اُن کے حریف انہیں ”یوٹرن ‘‘ قرار دیتے ہیں، جبکہ اُن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حقیقت پسندی اور حالات کا تقاضا یہی تھا۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ہمارا روایتی سیاسی نظام کسی ”نئے کھلاڑی ‘‘ کو اوپر نہیںآنے دیتا۔ اس کے لیے کسی بھی نووارد کو اسی نظام کے اصولوں کی پیروی کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ عمران خان کے لیے ضروری ہوچکا تھا کہ وہ لگی بندھی راہوں پر چلتے ہوئے اتھارٹی حاصل کریں اور پھر بہتری کے لیے تبدیلی لائیں۔

اس کے برعکس رائے یہ ہے کہ جب کھلاڑی اس کھیل کے اصولوں کے مطابق کھیل کر جیتتے ہیں تو پھر وہ بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ان راہوں پر چلتے ہوئے ٹاپ پر پہنچا جاتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ٹاپ پر موجود رہنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ چنانچہ سمجھوتے کرنے کی مجبوری ٹاپ پر پہنچ کر ختم نہیں ہوجاتی۔ پھر اس پوزیشن پر موجود رہنے کے لیے بھی کچھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کوشش میں انسان اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ اُس کے پاس نظام کی اصلاح کرنے کا وقت ہی نہیں رہتا۔

اس وقت عمران خان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جب اُنھوں نے 2011 ء میں الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل کیا تو اُن کے پاس دلیل یہ تھی کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ حکومت سازی کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان بے داغ ساکھ کے مالک ہیں۔ اُن کے دامن پر مالی بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں۔ اُنھوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوگا۔ وہ اپنی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اُن کے وزرا اور پھر دیگر افسران۔

گزشتہ پانچ سال کے دوران پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا کی حکومت میں احتساب اور اقرباپروری سے گریز کی روشن مثالیں نہیں ملتیں۔ لیکن توقعات پوری نہ ہونے کی تین وضاحتیں دی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان بنی گالا سے براہر ِاست حکومت نہیں چلا رہے تھے۔ دوسری، یہ اس نوجوان جماعت کا حکومت کرنے کا پہلا تجربہ تھا، اور تیسری، پی ٹی آئی کو کولیشن حکومت کی مجبور ی آڑے آتی تھی۔ اور پھر مرکزمیں مخالف جماعت کی حکومت تھی جو صوبے کو چلنے نہیں دیتی تھی۔

لیکن الحمداللہ، اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ عمران خان وزیر ِاعظم بننے جارہے ہیں۔ وہ ایک مقبول رہنماہیں، اور اُن کے پاس سادہ اکثریت موجود ہے۔ چنانچہ اُنہیں کوئی مجبور ی نہیں ہے۔ اب وہ وفاقی کابینہ کے لیے بہترین افراد کا انتخاب کریں گے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ عمران خان کی کرشماتی اور پرکشش شخصیت ہے۔ چنانچہ اُنہیں اپنی جماعت کے اندر ایک فیصلہ کن طاقت حاصل ہے۔ چنانچہ ایک فعال ٹیم چننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔

وقت عمران خان کے ساتھ ہے۔ اُنہیں جشن منانے کا حق ہے۔ اُنھوں نے اس وطن کے کروڑوں افراد کے دل میں امیدوں کے چراغ روشن کردیے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس وقت جب وہ صاحب ِ اختیار اورا قتدار ہیں، اُنہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ امید انسانی جذبات کا سب سے نازک حصہ ہوتی ہے۔ اُنہیں اپنے کرکٹ کے دنوں کے واقعات یاد ہوں گے۔ پاک بھارت میچوں کے ناموافق نتائج پر لوگ ٹی وی سیٹ توڑ دیا کرتے تھے۔ نیز جذبات کی اس دنیا میں ہیرو کو زیرو بنتے دیر نہیں لگتی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar