پاکستانی قانون کے تحت اپنی منکوحہ کے ساتھ زبردستی کرنا بھی زنا بالجبر ہے


زبردسی زنا یا زنا بالجبر ایک ایسا عمل ہے جس میں جنس مخالف کی اجازت کے بغیر اور اس کی مرضی کے خلاف زبردستی مباشرت کی جاتی ہے یعنی جسمانی اور جنسی تعلق قائم کیا جاتا ہے۔ زنا بالجبر کی اس تعریف میں کسی اگر مگر کی گنجائش نہیں۔ اب ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے منکوحہ ساتھی کے ساتھ جبری زنا (ریپ) کر سکتا ہے؟ جی ہاں یہ ممکن ہے۔ اور پاکستان میں یہ ہورہا ہے۔

اپنے منکوحہ ساتھی کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف جنسی عمل کرنا نکاح کے دائرے میں جبری زنا ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے قانون میں نکاح کے دائرے میں جبری زنا کو جرم تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے نکاح کے دائرے میں بھی جبری زنا کی گنجائش نہیں لیکن بری بات یہ ہے کہ ہوتا ایسا ہی ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 375میں زنا کی جامع تعریف بیان کی گئی ہے۔

زنا بالجبر۔
کوئی بھی مرد اس وقت کسی عورت کے ساتھ زنا کرتا ہے جب وہ مندرجہ ذیل پانچ باتوں کے تحت اس کے ساتھ جسمانی اور جنسی عمل کرتا ہے۔
1۔ اس کی مرضی کے خلاف
2۔ اس کی اجازت کے بغیر

3۔ اس کی رضامندی کے ساتھ لیکن جب اس سے رضامندی اس کو تکلیف یا موت کی دھمکی دے کر لی گئی ہو۔
4۔ اس کی مرضی کے ساتھ جب کہ مرد جانتا ہوکہ وہ عورت کے ساتھ بیاہا نہیں گیا اور یہ کہ رضامندی اس لیے دی گئی ہے کیونکہ عورت کا خیال ہے یا وہ سمجھتی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ وہ بیاہی گئی ہے۔
5۔ اس کی رضامندی سے یا اس کی مرضی کے بغیر جب اس کی عمر سولہ برس سے کم ہو۔

اب اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ۔
زنا ہوا ہے یا نہیں کا کا فیصلہ کرنے کے لئے Penetration یعنی کہ مرد کے آلہ تناسل کا عورت کے اندام نہانی میں دخول کا ثبوت پایا جانا ضروری ہے۔

قانون واضح انداز میں بتاتا ہے کہ وہ عورت جس کے ساتھ زنا کے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو وہ کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے۔ چاہے وہ اس شخص کی منکوحہ ہی کیوں نہ ہو سیکشن 375 کے ذیلی سیکشن 1، اور 2 میں کوئی بھی ایسا بیان یا جواز نہیں ہے جو کسی مرد کو اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ جبری جنسی تعلق قائم کر نے کی اجازت دیتا ہے اور یہ کہتا ہو کہ اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ جبری جنسی تعلق قائم کرنا جرم نہیں ہے۔

زنا بالجبر انسانیت کے خلاف جرمِ ہے اور میری دانست میں نکاح کے دائرے میں جبری جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنا اس سے بھی بڑا جرم ہے کیونکہ یہ جرم ایک ایسا شخص کرتا ہے جس کی بابت عورت کا خیال ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے اکثر معاملات میں اس کی آخری پناہ گاہ ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ ابھی اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ ہم زنا بالجبر کے بارے میں کھلم کھلا بات کر سکیں اور یا نکاح کے دائرے میں جبری زنا پر کھلے ذہن اور دل کے ساتھ گفتگو کرنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل اور محال ہے۔ بہت سے معاملات میں تو جب عورت اپنے گھر کے لوگوں کو بتائے کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ جبری زنا کیا ہے تو عورت کے اپنے ہی گھر کے لوگ اسے منہ بند رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اسی بات سن کر اپنی ہی لڑکی کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور اس کو پرجوش جنس سمجھتے ہیں جو اس کے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتا ہے۔ ہم ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے کہ ہم زنا بالجبر کو جرم سمجھیں۔

تا حال پاکستان میں کوئی ایسا جرم رجسٹر نہیں ہوا جو نکاح کے دائرے میں زنا بالجبر کی تعریف پر پورا اترتا ہو۔ اگرچہ ایسے کیسز ہیں جن میں عورتوں نے اپنے شوہروں کے خلاف کرمنل کیس دائر کیے کہ ان کے شوہر انہیں لواطت یعنی غیر فطری طریقے سے جنسی عمل (Sodomy) پر مجبور کرتے ہیں تاہم جرم تکنیکی اعتبار سے یہ نکاح کے دائرے میں زنا بالجبرکی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ اس پر مصیبت یہ کہ ایسے کیسز میں عورتوں پر سماجی دباؤ اس قدر زیادہ بڑھا کہ وہ کیس واپس لینے پر مجبور ہو گئیں۔

تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 376میں زنا بالجبر کی سزا مقرر کی گئی ہے، اور اگر یہ سزا عمل میں لائی جائے اور زنا بالجبر کرنے والے مرد کو اگر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تو عورتوں کا بھلا ہو۔

زنا بالجبر کے جرم کی سزا
1۔ جو کوئی زنا بالجبرکا ارتکاب کرے اسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے اور عمر قید کی سزا دس سال سے کم اور پچیس سال سے زیادہ نہ ہو جب کہ اس کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی دی جائے۔
2۔ جب زنا بالجبر میں دو یا اس سے زیادہ لوگ شامل ہوں اور ان سب کی نیت مشترک ہو تو ان میں سے ہر ایک کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے۔

چونکہ زنا بالجبر کرنے والوں کو پھانسی پر گاہے گاہے لٹکایا نہیں جاتا ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نکاح کے دائرے میں زنا بالجبر کرنے والوں Marital Rapists کی پھانسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ زنا بالجبر کرنے والے مجرموں کے لئے ریلیف ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ قانون میں بھی سقم ہے، یہ قانون عورت کے ساتھ زنا بالجبر کے خلاف تو ہے لیکن مرد کے خلاف یہی کام قانون میں نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ابھی تک ارتقا کے نظریے تحت ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈارون درست تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).