خواتین ووٹرز کی فتح


25جولائی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو وہاں ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی لمبی قطار دیکھ کر دنگ رہ گیااور خوشی بھی ہوئی۔وہ بڑے جوش وخروش سے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لے رہی تھیں۔یہ دیکھ کر بانیَ پاکستان کا قول یاد آ گیا:”کوئی بھی جدوجہد اسی وقت کامیاب ہو گی جب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہوں۔”
یہ خوش آئند امر ہے کہ کراچی تا خیبر الیکشن18ء میں خواتین نے بڑے جذبے سے،بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔خواتین ووٹرز کی تعداد چار کروڑ تہتر لاکھ سے زیادہ تھی۔فافن کے مطابق ان میں سے 45تا 47فیصد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔یہ پہلا تاریخی الیکشن ہے جب چاروں صوبوں کے کئی قدامت پسند علاقوں میں بس خواتین نے پہلی بار ووٹ ڈالا۔گویا یہ الیکشن خواتین ووٹرز کی یادگار فتح بھی بن گیا کہ تمام تر مقامی و معاشرتی پابندیوں کے باوجود وہ ووٹ ڈالنے میں کامیاب رہیں۔
دور جدید میں بھی پاکستان کے کئی علاقوں میں خودساختہ مقامی رسوم ورواج کی وجہ سے خواتین ووٹ نہیں ڈال سکتیں حالانکہ ہمارے دین میں مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے مساوی درجہ حاصل ہے۔اکثر علاقوں کے مردانہ معاشروں میں یہ تاثر عام ہے کہ خواتین کا پولنگ اسٹیشن جاناان کی عزت ووقار کے منافی ہے۔یہ محض جھوٹی انا کا استعارہ ہے جو خواتین خانہ کو زیردست رکھنا چاہتی ہے۔جہالت کی انتہا کہ بعض علاقوں میں سمجھا جاتا ہے ، عورت کے قدم پولنگ اسٹیشن کی جانب بڑھے تو نحوست آجائے گی۔گویا وہ خاتون نہ ہوئی ،کوئی بلی ہو گئی۔


الیکشن ایکٹ 17کی بعض شقیں قابل اعتراض ہیں مگر اس کی ایک شق ضرور انقلابی ثابت ہوئی جسے پی پی پی کی رہنما،شیریں رحمن نے قانون کا حصہ بنوایا تھا۔یہ قدامت پسند علاقوں میں خواتین کو پولنگ اسٹیشن لانے کا سبب بن گئی۔اس کی رو سے جس حلقے میں خواتین کے10فیصد ووٹ نہ پڑے،وہاں انتخاب کالعدم قرار پائے گا۔اسی شق کے باعث کئی علاقوں میں مرد اپنی خواتین کو مجبوراً ووٹ ڈلوانے لے آئے۔اب دانشوروں کا مطالبہ ہے کہ 10 فیصد شرح کو20تا 25فیصد کیا جائے تاکہ ہر حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد بڑھ سکے۔
جیسے این اے ایک چترال کی خواتین نے اپنے حلقے میں نئی تاریخ رقم کردی۔25 جولائی کو علاقے میں خواتین نے مردوں سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے۔وہاں ووٹروں میں 61.68فیصد خواتین تھیں جبکہ مردوں کے ووٹ 60.49فیصد رہے۔چترال کے دوردراز علاقے میں خواتین کا یہ جوش وخروش عیاں کرتا ہے کہ وہاں صنف نسواں میں اپنے حقوق کی بابت شعور وآگاہی جنم لے چکی۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین سے لے کر عام پاکستانی مردوں کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ خواتین ووٹروں کی شمولیت ایک مثبت اور ترقی بخش عمل ہے۔یوں ہمارے دیس میں جمہوریت مضبوط ہو گی اور ووٹروں کی تعدداد بڑھنے سے بہتر قیادت سامنے آئے گی۔


ہمارے پڑوس ،بھارت میں اب خواتین ووٹرز کئی حلقوں میں فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہیں۔وجہ یہ کہ بھارتی خواتین کو احساس ہو چکا کہ انتخابی عمل میں شامل ہونے سے ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے۔ان کے ووٹوں سے منتخب کردہ عوامی نمائندے کو بہر صورت خواتین کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں۔پاکستانی الیکٹرونک،پرنٹ اور سوشل میڈیا کا فرض ہے کہ وہ پاکستانی خواتین میں بھی اپنے حقوق وفرائض کے سلسلے میں آگہی وشعور پیدا کریں۔یوں ان کی زیادہ تعداد ووٹ ڈالنے کی جانب راغب ہو گی۔انھیں اپنے فیصلے کرنے میں آزادی وخودمختاری دینا ناگزیر ہو چکا۔

بالادست پاکستانی مردانہ معاشرے کو سمجھ جانا چاہیے کہ اب خواتین کو اپنے زیردست نہیں رکھا جا سکتا۔یہ اخلاقی،مذہبی اور فطری،ہر لحاظ سے غلط چلن ہے۔اس طرح معاشرے کا پورا آدھا حصہ عضوِ معطل بن جاتا ہے۔جبکہ آپ نے یہ مشہور قول تو سن رکھا ہو گا:”کچھ کہلوانا ہے تو مرد سے کہو۔کوئی کام کروانا ہے تو خاتون سے رابطہ کرو۔”

(سید عاصم محمود ادیب،مدیر اور قاموس نگارسید قاسم محمود کے فرزند ہیں۔تیس سال سے سائنسی،معلوماتی ،معاشرتی اور سیاسی موضوعات پہ لکھ رہے ہیں۔اردو ڈائجسٹ کے مدیر رہے۔آج کل روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).