پاکستانی آم، چئیرمین ماؤزے تنگ اور آمریت کی ہولناک نفسیات


4اگست 1968ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ سید شریف الدین پیرزادہ نے چین کے سربراہ ماؤزے تنگ کو آموں کو تحفہ دیا۔ شریف الدین پیرزادہ کی طرف سے آموں کا تحفہ چیئرمین ماؤزے تنگ کو پسند آ گیا۔ چنانچہ ثقافتی انقلاب کی خوفناک دہشت کے سائے میں زندہ چینیوں کو آموں کا بخار چڑھ گیا۔ چینی میڈیا نے اپنی رپورٹس اور آرٹیکلز میں آموں کے قصیدے گائے۔  شعراء نے آم پر نظمیں کہیں جو چین کے بڑے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیداروں نے بھی ان آموں پر مفصل آرٹیکل لکھے جو اخبارات میں شائع ہوئے۔

چیئرمین ماؤزے تنگ کو یہ آم اس قدر پسند آئے کہ انہوں نے آموں کو ’’روحانی ٹائم بم‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ چیئرمین ماؤزے کے اس بیان کے بعد چینی میڈیا نے پاکستان کی طرف سے آموں کے تحفے کو کس قدر اہمیت دی اس کا اندازہ چینی اخبار پیپلزڈیلی میں شائع ہونے والے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے۔ پیپلزڈیلی نے لکھا تھاکہ ’’ان سنہرے آموں کو دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے عظیم لیڈر چیئرمین ماؤ کو دیکھنا۔۔ باربار ان سنہرے آموں کو چھونا اور ہر بار ان کی حدت کو محسوس کرنا۔‘‘

اس سے قبل چین میں آم شاذ و نادر ہی کسی نے دیکھے تھے، یہ ان کے لیے ایک نیا پھل تھا۔ چنانچہ چینیوں نے جب آموں کے اس تحفے کے متعلق چیئرمین ماؤ کے تعریفی کلمات سنے تو آم کے گرویدہ ہو گئے اور پاکستان کے اس تحفے پر جشن منایا۔ پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے آموں میں سے ایک آم بیجنگ ٹیکسٹائل فیکٹری میں بھیجا گیا جسے وہاں ایک جگہ لٹکا دیا گیا اور ورکرز آ کر اس کا ’دیدار‘ کرتے رہے۔ جب چند روز بعد اس آم کی رنگت خراب ہونے لگی تو ورکرز  نے اسے چھیل کر گودے کو پانی میں ابالا اور پھر فیکٹری کے تمام ورکرز کو اس میں سے ایک ایک چمچ پانی پینے کے لیے دیا گیا۔ ماؤزے تنگ کی انقلابی کمیٹی نے ان آموں کی نقل بھی تیار کی۔ کئی صوبائی انقلابی کمیٹیوں کے اراکین نے بھی بیجنگ آ کر ان آموں کا نظارہ کیا اور ایسی ہی نقلیں بنوا کر اپنے اپنے صوبوں میں لیجا کر لوگوں کے دیکھنے کے لیے مختلف مقامات پر رکھ دیں۔ چینیوں میں آم کے تقدس کا یہ عالم تھا کہ ایک قصباتی ڈاکٹر  نے آم کا میٹھے آلو سے موازنہ کر دیا۔ اس گستاخی پر اسے گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت دی گئی۔

https://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/asia/china/9914895/How-China-came-to-worship-the-mango-during-the-Cultural-Revolution.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).