شاہ قاچار، وزیر جنگ اور رضا خان: محلاتی سازشیں اور بدقسمت ایرانی قوم


میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کا چپہ چپہ دیکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام” سفری زندگی“ رکھا تھا۔ ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر اقتباس میں ایران میں قیام کے دوران اس وقت کے بادشاہ احمد شاہ قاچار، اس کے وزیر جنگ کرنل مسعود کیہان اور پہلوی دودمان کے بانی رضا کان کی سازشوں کے مشاہدات بیان کئے ہیں۔ ایران میں دادا جان کے قیام کا عرصہ سنہ 1924ء کی آخری سہ ماہی سے جون 1927ء تک تھا۔

***       ***

شاہ ایران احمد شاہ قاچار، زیادہ تر سرکار انگلشیہ کے رحم و کرم پر تھا۔ شمال کی طرف سے روس نے ایران کو ہضم کرنا شروع کر دیا تھا اور 1923 میںروس اور ایران کی قلعہ انزیلی پر لڑائی بھی ہوئی اور کچھ عرصہ ہوتی رہی۔ ان دنوں شاہ ایران اپنے ملک میں موجود تھا یا سرکار انگلشیہ کا لایا ہوا تھا۔ قلعہ انزیلی پر روس اور ایران کے درمیان لڑائی ہو رہی تھی اور کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا تھا کیونکہ روس کی قوت بھی اس زمانے میں زیادہ طاقت ور اور منظم نہیں تھی۔

sultan-ahmed-shah-qajar (1909-1925)

 متذکرہ بالا لڑائی کے دوران میں ایران کا وزیر جنگ، جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا، [اس وزیر جنگ کا نام کرنل مسعود کیہان تھا۔ س ع۔] اور رضا خان، جو کہ اب جرنیل تھا، ملک اور فوج میں کافی اثرو رسوخ پیدا کر چکا تھا، بادشاہ کے خلاف سازش کرنے لگے۔ بلکہ ان ہر دو افسران بالا نے یہ فیصلہ کر لیا کہ احمد شاہ کو جان سے ہی مار ڈالا جائے کیونکہ شاہ زندہ رہا تو سرکار انگلشیہ ہمیشہ ہی اس کی حمایت اور پاسداری کرتی رہے گی جو کہ ملک میں بدامنی اور بدانتظامی کا باعث ہو گا۔ پس بہتر یہی ہے کہ بادشاہ کو ملک عدم ہی پہنچا دیا جائے تاکہ ملک سے یہ بلا دور ہو۔ وزیر جنگ اور جنرل رضا خان کے درمیان تحریری معاہدہ بھی ہو گیا تھا کہ بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد وزیر جنگ وزیر اعظم بن جائے گااور رضا خان وزیر جنگ ہو جائے گا۔ چونکہ رضا خان بطور سائیس کے شاہ کے محلات میں کام کر چکا تھا اور اس کا اثر و رسوخ بھی شاہ کے خانگی معاملات میں زیادہ تھا، اس لیے احمد شاہ کے قتل کا کام اسی کے سپرد کیا گیا۔

احمد شاہ قاچار مصاحبین کے ہمراہ

 جب رضا خان اور وزیر جنگ کے درمیان سازش کے معاہدہ کا کام تحریری طور پر مکمل ہو گیا تو آغا رضا خان وہی معاہدہ لے کر سیدھا بادشاہ کے محلات میں گیا اور بادشاہ کو وزیر جنگ کے ارادہ و منصوبہ سے آگاہ کیا جس پر احمد شاہ بے چارہ، جو کہ عیش و عشرت میں غرق تھا، پسینہ پسینہ ہو گیا اور ڈر کے مارے کانپنے لگ گیا۔ یہ تو بادشاہ کو معلوم تھا کہ ملک کا بچہ بچہ اس کے خلاف ہو رہا ہے اور اب جس وزیر جنگ پر اسے بھروسہ تھا وہ اندرونی طور پر اس کی جان لینے کو تیار تھا۔ تب احمد شاہ رضا خان سے التجا کرنے لگا کہ میری جان اور شاہی کس طرح بچ سکتی ہے اور میں دوبارہ اپنے ملک میں کس طرح اپنا رعب داب قائم رکھ سکتا ہوں۔

احمد شاہ قاچار رضا خان پہلوی کے ہمراہ

یہی عہدہ جو تو نے مجھے مار کر حاصل کرنا ہے، جس کا معاہدہ تو نے وزیر جنگ کے ساتھ کیا ہے، میں تجھے دے دوں گا جو کہ میرے لیے بہت آسان ہے۔ وزیر جنگ جو میرے لیے ایسے خیالات رکھتا ہے بعد ازاں شاید تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کرے جو اس نے میرے ساتھ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس پر رضا خان نے بادشاہ کو کہا اگر آپ مجھے یقین دلا سکتے ہیں کہ مجھے ضرور وزیر جنگ بنا دیں گے اور وقت گزرنے کے بعد میرے متعلق دل میں کوئی بغض اور کدورت نہیں رکھیں گے تو میں آپ کو وزیر جنگ کا خاتمہ یا کانٹا نکالنے کی بہت آسان ترکیب بتاتا ہوں جو کہ آپ کے پاس آنے سے پہلے سوچ چکا ہوں، جس سے وزیر جنگ کے متعلق کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ وہ کہاں پر ہے یا روس کو گیا ہوا ہے۔ ترکیب حسب ذیل ہے۔

شاہ قاچار کی حرم سرا کا ایک حصہ

اس وقت روس سے قلعہ انزیلی پر لڑائی تو ہو ہی رہی ہے اور اپنی فوجیں روس کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ اس لیے آپ صبح تخت پر جلوہ افروز ہو کر مجلس سے یہ حکم صادر کر ادیجیے کہ جنرل رضا خان اور وزیر جنگ بذات خود لڑائی میں موقع پر جا کر شاہ اور مجلس کو حالات سے پوری طرح اطلاع دیں اور فوجوں کی ترتیب خود کریں۔ نیز اپنے زیر کمان لڑائی کا کام خود سنبھالیں، جس کے لیے میں، رضا خان ،آپ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے فوراً رضامندی کا اظہار کر دوں گا۔ پس جب ہم دونوں شمالی ایران، جس علاقے میں لڑائی ہو رہی ہے، پہنچ جائیں گے تو میں آپکو اطلاع کر دوں گا۔

ایرانی فوج کا ایک حصہ

آپ اسی وقت شمالی ایران کے گورنر کو پرائیویٹ طور پر حکم بھیج دینا کہ وزیر جنگ کی نیت اور ارادے ملک و ملت کے لیے خراب ہیں اور اس کی سازش روس سے ظاہر ہو گئی ہے۔ چونکہ وزیر جنگ ہے اور ویسے بھی اس کا اثرو رسوخ فوجوں میں کافی ہے، اس لیے اس کو ظاہرہ طور پر کوئی گزند پہنچانا یا برطرف کرنا باعث بدامنی و خانہ جنگی ہو گا۔ جس طرح بھی ہو سکے ملک و ملت کا فائدہ نظر میں رکھتے ہوئے اسے ختم یعنی قتل کر دو یا ملک بدر کر دو جس سے یہ ملک میں دوبارہ نظر نہ آئے اور نہ ہی آئندہ کسی سازش یا بد امنی کا موجب بنے۔ مفصل حالا ت و تجویز سے آپ کو جنرل رضا خان مطلع کرے گا جس کو سب کارروائی اور سازش کا علم ہے۔ تم کو یعنی گورنر کو رضا خان کی تجویز پر عمل کرنے ہدایات بھیجتا ہوں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2