نیلسن منڈیلا، پیالہ، مَیٹ، چمچہ اور عمران خان


یہ نیلسن منڈیلا کا صد سالہ جنم مہینہ اور سال ہے، استعماریت اور جبر کے خلاف انتھک مزاحمت کرنے والے اور نیلسن منڈیلا کی طویل مزاحمت کا احترام کرنے والے مغربی اور مشرقی لوگ متفرق حوالوں سے دھرتی کی اس ناقابل یقین شخصیت کو یاد کر رہے ہیں۔ تپش اورحبس زدہ ’جزیرہ رابن‘ جس کی جیل کوٹھڑی میں نیلسن منڈیلا نے اپنی زندانی زندگی کے 27 میں سے 18 سال گزارے اب کسی زیارت گاہ سے کم درجہ نہی رکھتی۔ یہاں سال بھر دنیا کے مختلف مقامات سے لوگ آ کر اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کس قدر کٹھن حالات میں نیلسن منڈیلا نے اپنی کے عزم و حوصلے کے کُھلے بادبانوں سے جیون کی کشتی رواں دواں رکھی یہاں تک کہ وہ روشن دن آ پہنچے جب سفید فام اقوام بلکہ سارے عالم نے نسلی اور انسانی مساوات کے عالم گیر اصول کو تسلیم کر لیا۔

عمران خان صاحب جو اب ہمارے متوقع وزیر اعظم بھی ہیں دراصل اپنی لیڈری کی عظمت جھاڑتے ہوے اکثر نیلسن منڈیلا کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کی نیلسن منڈیلا کی بے مثال سیاسی جدو ڄہد کا دورانیہ کم و بیش 34 سال پر محیط ہے۔ اور وہ طاقت اور اختیار کے لئے نہیں بلکہ مساوات اور عدم تفریق کے لئے جدق جہد کر رہے تھے۔ اور یہ کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھا ہو۔ صرف 1960 کے اولین برسوں کے سوا۔ جب سفید فام برطانوی حکمرانوں کی بربریت اور تشدد نسل کُشی کی حد تاک بڑھ چکی تھی، نیلسن منڈیلا کی ساری جدوجہد عدم تشدد پر مبنی رہی۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی جنگ تحمل، بردباری، مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے سے لڑی۔ منڈیلا صاحب ایک وکیل تھے اور انہوں نے نہ صرف منصفانہ اور غیر امتیازی دستور و قانون کے لئے تحریک چلائی بلکہ مساوی اور منصفانہ قانون کا خود بھی احترام کیا۔ 1990 میں جیل سے رہاٗئی کے بعد انہوں نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لئے تین سال تک مسلسل مہم چلائی۔ انہوں نے تاریخی مثالوں اور قانونی نکتوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ نسل پرستانہ تفریق یا اپارتھیڈ نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔

منڈیلا نے ایک طویل عرصہ جیل بندی برداشت کی لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ دُنیا اس کو ضمیر کا سب سے بڑا قیدی قرار دیتی ہے۔ اتنی طویل حراست اور مشقت کے بعد جب1990 میں وہ رہا ہو کر باہر آئے تو انھوں نے بشمول اپنے جیلرز کے تمام سفید فام جابر حکمرانوں کو مطلقاً معاف کر دیا بلکہ ان کو تشدد کے ذریعے نکال باہر کرنے کی بجائے آئینی طریقے سے اُن کو شکست دی۔ اپنے مدِ مخالف جنوبی افریقہ کے سفید فام صدر ” ایف ڈبلیو ڈیکلارک“ کو انتخابات لڑنے کی دعوت دی۔ پورے چار سال اپنی عوام کو، جن کے ذھنوں میں کئی دہائیوں کی ذلت اور رسوائی کی وجہ سے انتقام کا لاوا کھول رہا تھا، تحمل، بردباری، حوصلے، مساوات اور سب سے بڑھ کر معاف کر دینے کاجذبہ عطا کیا۔ نہ صرف یہی بلکہ ڈیکلارک کے ساتھ ملکر نئے جنوبی افریقہ کا لائحہء عمل تیار کیا اور جنوبی افریقہ میں رہنے والے تمام سفید فام شہریوں کو برابر شہریت کا حق دیا۔

مشترکہ حکمت عملی اور سفید فام اقلئیت کے ایک ایک فرد کو معاف کر دینے کی فراخ قلبی کو سراہتے ہوئے نوبل امن کمیٹی نے 1993 میں نیلسن منڈیلا اور ڈیکلارک کو مشترکہ نوبل پیس پرائز سے نوازا۔ نیلسن منڈیلا اگر چاھتے تو وہ ذیکلارک کے ساتھ پرائز لینے سے انکار بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا نھیں کیا اور یہ کہہ کر مشترکہ انعام موصول کیا کہ انسان اختلافات کے با وجود ساتھ چل سکتا ہے اور اپنی نوبل تقریر میں کہا ” یہ نہیں کہ میں نے اپنے نظریات بدل لیے ہیں بلکہ میں نے دنیا پر یہ واضح کرنے کے لئے مشترکہ انعام وصول کیا ہے کہ ’اختلافات کو دوستانہ مذاکرات سے بھی حل کیا جا سکتا ہے‘۔ مفاھمت کی پالیسی پر شکوہ و اعتراض کرنے والے شہریوں کو وہ سمجھاتے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ ملک آگ اور خون سے بھڑک اٹھتا۔ نیلسن منڈیلا کا ساتھ دیتے ہوے معروف پادری ڈیسمنڈ تُوتُو نے ”سچائی اور مفاھمت کمشن“ کے ذریعے رنجیدہ لوگوں کی ڈھارس بندھائی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1994 میں لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کرکے صرف پانچ سال حکو مت کی اور اپنی پاپولیریٹی کے باوجود دوسری بار انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا۔

منڈیلا نے اپنی باقی زندگی فلاحی کاموں اور جمہوریت کے فروغ کے لئے وقف کر دی۔ میری دانست میں عمران خان کو نیلسن منڈیلا کی جدو جہد، اس کی عظمت اور گہرائی کا اندازا نہیں ہے۔ وہ صرف ایک بڑے نام کو حصول شہرت کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد مین سیاح صرف رابن جزیرے کی جیل جہاں نیلسن منڈیلا مقیّد رہے، دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور یہ دیکھ کر انگُشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ دنیا کا ایک عظیم رہنما صرف ایک مَیٹ، ایک کپ، ایک پیالے اور ایک چمچ سے اٹھارہ سال تک گزارا کرتا رہا۔ اُن میں سے ایک صاحبِ ذوق سیاح نیلسن منڈیلا کی جدوجہد سے اس قدر انسپائر ہوٖے کہ وہ قید کے دوران منڈیلا کے استعمال میں رہنے والا ’چمچ‘ ہی چُرا کر لے گئے۔ ہو سکتا ہے اس نے سوچا ہو کہ منڈیلا کا چمچ اپنی دسترس میں رکھنے سے اُسکی اپنی عظمت میں کس قدر اضافہ ہو جا ئے گا۔ اس واقعے کے بعد سے اب سیاحوں کا جیل کوٹھڑی کے اندر داخلہ بند کر دیا گیا ہے اور وہ صرف سلاخوں سے جھانک سکتے ہیں لیکن اندر نہین جاسکتے۔
اب یہ معلوم نہیں ہے کہ خانصاحب اس واقعے سے پہلے جزیرہ رابن گئے تھے یا اس واقعے کے بعد لیکن اس کوٖئی شک نہین کہ ان کے منڈیلا سے متاثر ہو نے کی مقدار شاید اُس چمچ سے بھی کم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).