جہیز تو ہم اپنی بیٹی کو دیتے ہیں


اب تو سیاہ بالوں میں سے سفید چاندی صاف جھلکنے لگی تھی۔ گھر میں بیٹھی تیس روپے فی جوڑا سلائی سے شروع کرنے والی روبینہ آج تین سو روپے فی جوڑا سلائی لے رہی تھی۔ تیس سے تین سو تک کا یہ سفر تو تیس سال کے عرصے پر محیط تھا لیکن خود روبینہ کی زندگی کا سفر پینتالیسویں سال میں داخل ہو چکا تھا۔ پچھلے تیس سال سے دلہنوں کے کپڑے سی سی کر اپنے شادی کا جہیز اکھٹا کرنے والی روبینہ کی آنکھوں میں اب شہنائی کی رمق بھی مانند پڑنے لگی تھی۔ وہ دلہن کے ہر جوڑے کو تیار کرکے سب سے پہلے آئینہ کے سامنے خود پر تان کر ضرور دیکھتی تھی۔

ایک عرصے سے جہیز کی عفریت میں دبی اپنی دلہن بننے کی خواہش کو دل میں بسائے چند لمحوں کے لیے کہیں کھو سی جاتی اور کچھ دیر تک اِسی طرح اپنے دامن میں اشکوں کے موتی بکھیرتی رہتی جب دامن موتیوں کو اپنے اندر جذب کرنے سے انکار کرنے لگتا تو دوبارہ سلائی مشین پر اپنی زندگی کے اُدھڑے پنوں کو رفو کرنا شروع کردیتی۔ کہنے کو تو وہ اپنے بیاہ کےلیے کافی سارا جہیز اکھٹا کر چکی تھی لیکن اب رشتے والوں کی ڈیمانڈ صرف جہیز نہیں تھی بلکہ چہرے کی وہ شادابی بھی تھی جسے وہ جہیز نامی عفریت کی نظر کرچکی تھی۔

فرزانہ کی کہانی بھی روبینہ سے مختلف نہ تھی وہ بھی گھر سے باہر اسی لیے کمانے نکلی تھی کہ اپنے اور اپنی سے چھوٹی دو بہنوں کے لیے جہیز اکھٹا کرسکے۔ لیکن ایک تنخواہ میں وہ کیا کیا کرتی گھر کے خرچ میں ہاتھ بٹائے اپنا جہیز تیار کرے یا اپنی سے چھوٹی دو بہنوں کی شادی کی فکر کرے۔ لہذا اپنے باس سے مراسم بڑھانے پڑے تب جاکر دونوں بہنوں کی بھرپور جہیز کے ساتھ شادی ممکن ہوسکی۔

بچپن سے سنتا آرہا ہوں جہیز ایک لعنت ہے لیکن بچپن سے یہ بھی دیکھتا آرہا ہوں ہر گھر اِس لعنت سے بھرا پڑا ہے۔ آج تک کوئی ایسا گھر دیکھنے کو نہیں ملا جس نے اِس لعنت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی ہو۔ ہاں گفتار کے غازی ہر جگہ دیکھنے کو ملے لیکن جیسے ہی میدان میں اترنے کا وقت آیا لعنت کا یہی طوق بڑے فخر سے اپنے گلے میں پہنے دکھائی دیے۔ عام خیال یہی ہے کہ جہیز کی اِس لعنت سے چھٹکارا امیر اور اپر مڈل کلاس طبقے کے باعث ممکن نہیں ہے۔ جن کی وجہ سے غریب طبقے کو اِس عذاب کو مجبوراً جھیلنا پڑ رہا ہے۔ میرا نہیں خیال غریب طبقہ معاشرتی تقاضے کے تحت بیٹیوں کو جہیز دینے پر مجبور ہے۔ اور اگر ہمارے معاشرے سے جہیز جیسی قبیح رسم کا خاتمہ ہوجائے تو غریب کی بیٹی بِنا جہیز کے بیاہ دی جائے گی میں نہیں سمجھتا ایسا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب ہو یا امیر دونوں میں سے کوئی اِس قبیح رسم کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ باشعور طبقے کی جانب سے برسوں سے جاری کوششوں کے باوجود آج تک اِس لعنت سے چھٹکارہ نہیں پایا جاسکا۔

حالانکہ تعلیم اور شعور کی بنیاد پر آج بھی کئی ایسے گھرانے موجود ہیں جو لڑکی والوں سے جہیز لینا درست سمجھتے اور نہ ہی اُن پر کسی قسم کا کوئی پریشر ڈالتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بجائے اِس کے لڑکی والے اِس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اِس عفریت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہ غریب بچیاں جو والدین کی جانب سے جہیز نہ ملنے کے سبب گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں وہ بھی بیاہی جاسکیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا اور لڑکے والوں کی جانب سے منع کردینے کے باجود بیٹی کو بھرپور جہیز کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔

ہمارے محلے کی زرینہ خالہ کی مثال لے لیجئیے انتہائی غربت کے باوجود بیٹی کی شادی میں جہیز کے دیگر سامان کے ساتھ داماد کو ایک عدد موٹر بائیک بھی گفٹ کی گئی ہے۔ جب کہ لڑکے والوں نے زرینہ خالہ کے مالی حالات دیکھتے ہوئے جہیز کےلیے منع کر دیا تھا اور صرف دو کپڑوں میں بیٹی کو رخصت کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن زرینہ خالہ کا اصرار تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کرینگی بیٹی کے نصیب میں جو ہوگا وہ ضرور لے کر جائے گی اور ویسے بھی جہیز ہم کسی اور کو تھوڑی اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں۔

پہلے لڑکی والوں کی جانب سے یہ آہ وزاری سننے کو ملتی تھی اگر جہیز نہیں دینگے تو سسرال میں لڑکی خوش نہیں رہیگی سسرال والے زندگی بھر طعنے دیتے رہیں گے۔ لہذا جہیز دینا غریب کی مجبوری ہے چاہے کتنا ہی قرضہ لینا پڑے لیکن اگر بیٹی کا گھر آباد رکھنا ہے تو جہیز تو دینا ہی ہوگا۔ آج جب بعض پڑھے لکھے باشعور گھرانوں کی جانب سے جہیز لینا ضروری نہیں سمجھا جاتا تو ایسے میں لڑکی والوں کی جانب سے اب یہ حیلہ بناکر پیش کیا جانے لگا ہے کہ جہیز تو ہم اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ یاد رکھئیے جہیز دینے کی اِس نئی اصطلاح کو اگر رَد نہ کیا گیا تو یہ سوچ معاشرے کےلیے اُس سوچ سے کئی زیادہ تباہ کن ثابت ہوگی جس میں جہیز کو لعنت سمجھ کر دیا اور لیا جاتا تھا برائی کو کم از کم برائی تو تصور کیا جاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).