عمران خان نے نریندر مودی کو بڑی پریشانی میں ڈال دیا


مودی

اگر واقعی نہیں بلایا تو لوگ کیا سوچیں گے؟

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذہن میں یہ سوال تو ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ عمران خان اپنی حلف برداری کی تقریب میں انھیں بلائیں گے یا نہیں؟

اور شاید وہ یہ دعا بھی کر رہے ہوں کہ مہمانوں کی فہرست تیار کرتے وقت بھول سے ہی سہی، اگر ان کا نام شامل نہ کیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔

اور وہ شاید یہ بھی سوچ رہے ہوں گے خود اپنی حلف برداری میں وزیر اعظم نواز شریف کو بلانا اتنا اچھا آئیڈیا نہیں تھا، اس وقت تو بہت تعریف ہوئی تھی لیکن اب اگر دعوت نامہ آگیا تو منع کیسے کریں گے؟ اگر منع کردیں گے تو شاید آئندہ کبھی کسی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے انڈیا اور پاکستان کے رہنما سرحد پار نہیں کریں گے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہ آ رہا ہو اور وہ بے چینی سے دعوت نامے کا انتظار کر رہے ہوں۔ سوچ رہے ہوں کہ سنیل گواسکر، کپل دیو، نوجوت سنگھ سدھو اور عامر خان کو تو بلا لیا، لیکن ہمیں نہیں؟

اگر واقعی نہیں بلایا تو لوگ کیا سوچیں گے؟ عمران خان سابق کرکٹر ہیں، کچھ پرانے دوستوں کو بلانا تو بنتا ہے، روز روز تو آپ وزیر اعظم نہیں بنتے، لیکن اب وہ سیاستدان بھی ہیں، سیاسی رہنماؤں کو بھی بلانا چاہیے۔ بھئی، ہم نے تو ایسا ہی کیا تھا۔

مودی

سنہ 2014 کے مقابلے میں اب حالات ذرا بدلے ہوئے ہیں

جب نریندر مودی نے اپنی حلف برداری میں تمام سارک ممالک کے رہنماؤں کو بلایا تھا تو یہاں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو لگا تھا کہ اتنی لمبی فہرست صرف اس لیے تیار کی جارہی ہے کہ نواز شریف کی موجودگی عجیب نہ لگے۔ صرف انھیں بلایا جاتا تو لوگ کہتے کہ کل تک (انتخابی مہم کےدوران) تو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کر رہے تھے اور اب انھیں ’بریانی‘ کھلا رہے ہیں۔

یہ ہی بات ممکنہ طور پر عمران خان کے ذہن میں بھی چل رہی ہوگی۔ وہ صرف نریندر مودی کو نہیں بلا سکتے، انھیں بھی سبھی سارک ممالک کے رہنماؤں کو بلانا ہوگا۔ اگر صرف نریندر مودی کو بلاتے ہیں تو لوگ کہیں کہ کل تک آپ نواز شریف کو تو بہت برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن انڈیا سے آپ کی محبت بھی کم نہیں۔ اور کفایت شعاری کے وعدے کا کیا ہوگا۔ اتنے مہمان بلانے کی کیا ضرورت ہے، حلف برداری کی تقریب براہ راست نشر کی جائے گی، جسے دیکھنی ہو ویسے ہی دیکھ سکتا ہے جیسے کرکٹ میچ دیکھے جاتے ہیں۔

سنہ 2014 کے مقابلے میں اب حالات ذرا بدلے ہوئے ہیں۔ اس وقت نواز شریف اور مودی اپنے عہدوں کی مدت شروع کر رہے تھے، اس لیے مودی کے لیے انھیں بلانا اور نواز شریف کے لیے یہاں آنا نسبتاً آسان تھا۔

لیکن اب نریندر مودی کو چند ہی مہینوں میں پارلیمانی انتخابات کا سامنا کرنا ہے، اگر وہ جاتے ہیں تو انھیں اس الزام کا سامنا ہوگا کہ ان کی پاکستان پالیسی میں استحکام نہیں ہے، پاکستان میں صرف وزیراعظم بدل رہا ہے وہ لوگ نہیں جو پاکستان کی انڈیا پالیسی طے کرتے ہیں۔

لیکن نریندر مودی خطرے مول لینے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اکثر ایسے فیصلے کر لیتے ہیں جو کوئی بھی دوسرا رہنما ہو تو سو بار سوچے اور پھر ٹال جائے۔ جیسے ایک دن اچانک بڑے کرنسی نوٹ بند کر دینا یا پھر شادی میں شرکت کے لیے اچانک لاہور چلے جانا!

عمران

عمران خان سابق کرکٹر ہیں، کچھ پرانے دوستوں کو بلانا تو بنتا ہے

انڈیا میں کس نے سوچا ہوگا کہ کوئی وزیراعظم کبھی یہ سوچ سکتا ہے کہ چلو واپسی میں لاہور ہوتے چلتے ہیں، نواز شریف سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور ان کی والدہ کے لیے جو شال خریدی تھی، کافی دن سے رکھی ہے، وہ بھی دیتے آئیں گے۔

اس لیے اگر دعوت نامہ آتا ہے اور وہ فوراً قبول کر لیتے ہیں تو زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اگر قبول نہیں کرتے تو اس کی دو تین وجہ ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑی یہ کہ جب وہ لاہور گئے تھے تو اس کے صرف ایک ہفتے بعد پٹھان کوٹ کی ایئربیس پر حملہ ہوا تھا۔ انڈیا کے مطابق یہ حملہ آور پنجاب کی سرحد پار کرکے ملک میں داخل ہوئے تھے۔

اگر وہ پھر جاتے ہیں اور پھر ایسا کچھ ہوجاتا ہے تو پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ’آئس بریک کرنے‘ یہ باہمی رشتوں کے جمود کو توڑنے کا اچھا موقع ہوگا، اور وزیراعظم کو جانا ہی چاہیے۔ کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایک سکیورٹی رسک ہوگا، وہاں وزیر اعظم کی سکیورٹی کی ذمہ داری کون لے گا؟

بہرحال، اگر دعوت نامہ آتا ہے تو فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ نریندر مودی پوری دنیا میں گھومے ہیں لیکن جیسا اکثر ہوتا ہے، بات پڑوسی کی دعوت پر ہی آکر اٹکتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp