آپ کے بچے کا وین ڈرائیور کون ہے؟ جاننے کی کوشش کیجئے


اسکول کھل چکے اب کسی حد تک ماﺅں کو بھی سکون آئے گا کہ بچوں کی روٹین پہلے کی طرح ہوجائے گی۔ دو ماہ بچوں کا ہلا گلہ بھرپور رہا اور ماوں کو بھی سونے کا کسی حد موقع ملا ۔ لیکن اب وہی صبح بھاگ دوڑ، لنچ بکس، بیگ میں سامان پورا ہے کہ نہیں کی فکر اور پھر بھاگتے دوڑتے کوئی اپنے لاڈلوں تو کوئی اپنی شہزادی کو اسکول کی وین میں بٹھانے کے بعد شکر ادا کرے گا تو کوئی اسکول کے گیٹ پر چھوڑنے کے بعد ٹریفک میں پھنسنے پر اپنی قسمت کو کوسے گا ۔ لیکن وہ جو صبح آٹھ بجے سے ایک بجے کا دورانیہ ہے اس میں نہ صرف تھوڑا سکون ہوگا بلکہ ہانڈی روٹی کے ساتھ ساتھ بکھرا گھر سمیٹنے اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے سپنے بننے کا بھی بہترین موقع ہوگا ۔

سب سے بڑی سہولت تو ان والدین کو ہے جن کے بچے گھر کے سامنے سے اسکول وین میں بیٹھتے ہیں اور گھر ہی کے سامنے اترتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہر کوئی اسکول چھوڑنے لینے جانے کا کام نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ سہولت اب ہر گھر کو حاصل ہے کہ ایک مخصوص رقم ادا کی جائے اور مقررہ وقت پر بچے وین سے اسکول پہنچ جائیں ۔ آسانی بھی تو د یکھئے کہ یہ دروازہ کھلا اور بچے گھر کے اندر لیکن کبھی کبھی گھر میں داخل ہونے والے بچے اپنے ہی گھر میں اندھیرا محسوس کرتے ہیں۔

مسز احسان کے تین بچے اسکول جاتے ہیں دو بڑے بیٹے جو سیکنڈری سیکشن میں ہیں انکا اسکول الگ ہے جبکہ بیٹی کافی چھوٹی ہے وہ ابھی پہلی جماعت میں ہے۔ بچی پہلے اسکول خوشی خوشی جاتی تھی لیکن اب اسے اسکول جانے سے چڑ ہوتی ہے۔ اتنی سی عمر میں بچی نے یہ کہنا سیکھ لیا ہے کہ اس کے سر میں درد ہے جس پر احسان صاحب نے مزاق اڑاتے ہوئے اپنی بیگم سے کہا کہ اور بچوں کے سامنے بولو یہ دیکھو تمہاری سات برس کی بچی کو ابھی سے سر درد شروع ہوگئے۔

بیٹی ایک ہی ہے تو اسکول بھی مہنگا ترین ہے اور اسکول جانے کے لئے جو جو لوازمات درکار ہیں وہ سب سے زیادہ بہترین ہیں۔ باربی ڈول بیگ، کلر باکس، لنچ بکس، پانی کی بوتل بھی اسکی پسند کی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اب نہ تو انکی بیٹی پڑھتی ہے بلکہ ضد ی اور چڑچڑی زیادہ ہوگئی ہے ۔ جب اسکول جانے کا وقت آئے تو اسکے سر اور پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے۔

مسز احسان نے متعدد بار اپنی بیٹی ماریہ سے پوچھا کہ کیا کوئی بچہ اسے تنگ کرتا ہے؟ کیا کوئی ٹیچر سخت ہیں جو اسے ناپسند ہوں؟ لیکن ہر بار جواب انکار میں ملا۔ لنچ باکس گھر ویسے ہی گھر آتا ہے، اب ماریہ گھر آکر ڈرائنگ بک پر رنگ بھی نہیں بکھیرتی یہ سب گھر والوں کو دکھائی دے رہا ہے لیکن وہ اسکول سے ناپسندیدگی کی وجہ جاننے سے قاصر ہیں۔ جنوری میں جب سارے ٹی وی چینلز نے سات برس کی معصوم زینب کی کوڑے میں پڑی لاش کو بہت بے رحمانہ طریقے سے دھندلا کئے بغیر بریکنگ نیوز کی زینت بنایا تو ماریہ کو بخار چڑھ گیا۔ اگلے دو روز میں یہ بخار اترنے کو نہیں آیا اور وہ اس کیفیت میں بار بار ایک جملہ کہتی کہ مجھے مت مارنا مجھے کتے کھا جائیں گے۔

ڈاکٹر کو یہ کیفیت جب بتائی گئی تو انھوں نے والدین کو سمجھایا کہ آ پ کی بچی کسی ایسی کیفیت سے گزر رہی ہے جو خوف اور بخار سے کہیں ہٹ کر ہے۔ آپ کو اس سے پیار محبت سے پوچھنا ہوگا ۔ ماریہ جب بہتر ہوئی تو مسز احسان نے اس سے پوچھا۔ اس بار شاید بچی کو ا حساس ہوا کہ ماں اسے بچا سکتی ہے تو اس نے خوفناک انکشاف کیا کہ اس کا وین ڈرائیور اسے جنسی ہراساں کرتا ہے، اسکے جسم کو غلط انداز سے چھوتا اور نوچتا ہے بلکہ اسے موبائل پر فحش ویڈیوز دکھاتا ہے۔ جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد اسے یہ کہہ کر ڈراتا ہے اگر اس نے منع کیا یا کسی کو بتایا تو وہ اسے مارکر اسکی لاش کتوں کے سامنے ڈال دے گا۔

مسز احسان کو پچھلے کئی ماہ سے اپنی بیٹی میں نظر آنے والی تبدیلیاں اپنی آنکھوں کے سامنے آنے لگیں۔ بچی کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر موجود پرانے نیل جو اب مدہم پڑ رہے تھے یہ بتارہے تھے کہ یہ وحشیانہ کھیل کب سے جاری ہے۔ جس میں ایک معصوم بچی کا بچپن تو چھینا ہی گیا ساتھ ہی اسے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا ۔ مسز احسان کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے دو راستے تھے کہ ہم اس وین ڈرائیور کا معاملہ اپنے ہاتھ لے لیں یا پھر اسکول کی انتظامیہ سے بات کریں ۔

ہم نے اسکول جانے کا فیصلہ لیا اور وہاں اس سنگین صورتحال کو رکھا جو انتظامیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کیونکہ یہ شخص ان کے اسکول کا سب سے باعتماد اور پرانا ڈرائیور تھا ۔ جس کی عمر بھی پختہ تھی اور والدین کی خواہش ہوتی تھی کہ چونکہ بچیوں کا معاملہ ہے تو ایک بردبار شخص پر ہی بھروسہ کیا جائے تاکہ بچیوں کا سفر محفوظ رہ سکے۔ لیکن یہاں سفر کیا محفوظ ہوتا بچیوں کی عزت ہی غیر محفوظ ہوچکی تھی۔ یہ معاملہ ایک بڑے اسکول کا تھا تو اسے حل بھی بہت سنجیدگی سے کیا گیا۔ لیکن مسز احسان کا کہنا ہے کہ سات ماہ گزرنے کو ہیں بچی کو ماہر نفسیات کو بھی دکھایا گیا ہے بظاہر وہ ٹھیک ہے لیکن اب وہ اس طرح نہیں ہے جیسے وہ ہوا کرتی تھی۔

ان کا یہ جملہ سن کر میرا دل ڈوب گیا کہ ایک کمسن بچی جس نے ابھی زندگی شروع بھی نہیں کی اس نے جینا چھوڑ دیا وہ خوف اور دہشت کے خول میں بند ہوچکی ہے جس سے نکالنے کے لئے اسکے گھر والے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بچی اب مسکرا تی ہے ہنستی نہیں۔

اس سے قبل مجھے ایک جان پہچان کی فیملی سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے پانچ سال کے بیٹے کو بھی ایک وین ڈرائیور نے اپنی جنسی حیوانیت کا نشانہ بنایا تھا اور یہ کھیل بھی بہت عرصے تک چلتا رہا۔ جس پر اسکول انتظامیہ نے والدین کے سامنے اسکول کے بڑے نام اور شہرت پر ممکنہ داغ لگنے کے ڈر سے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کرلیا تھا ۔

آپ کا بچہ اسکول کیسے جاتا ہے؟ وین گھر کے سامنے سے لیتی ہے؟ آپ کو کافی تسلی ہوگی ناں؟ سہولت جو ہے لیکن کیا کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ ڈرائیور کون ہے؟ کیسا شخص ہے؟ کیا کبھی آپ نے اپنے بچے سے ساری باتوں کے علاوہ اس پر بات کرنے کی کوشش کی کہ وہ جس سواری پر جاتا ہے اسے منزل پر پہنچانے والا شخص کس مزاج کا ہے اگر آپ کے بچے کو اس سے شدید چڑ ہے تو اسکی ایسی کیا وجہ ہے کہ وہ اس سے نفرت بھی کرتا ہے لیکن جانے پر مجبور بھی ہے؟ بچے کی مجبوری کو اذیت اور خوف تک پہنچنے سے پہلے اس کا حل نکالیں۔

خاندان میں کس کی شادی کیسے چل رہی ہے کس کی بہو سے نہیں بنتی، شادی میں نیا جوڑا بنانے کے لئے قیمتی کپڑا کس مارکیٹ سے بہتر ریٹ میں مل جائے گا؟ شہر میں کون سے ریستوران کا کھانا سب سے زیادہ مزیدار اور کون سی مووی سب سے زیادہ ہٹ ہے ۔ ا س سب کے لئے جب وقت نکالا جا سکتا ہے تو اس بات کے لئے بھی وقت نکالیں کہ چھوٹی سی عمر میں بچہ جسم میں اٹھنے والے درد کو اسکول نہ جانے سے کیوں مشروط کردیتا ہے؟ وہ من پسند کھانا کیوں رغبت سے نہیں کھاتا؟ اس نے کارٹون دیکھنے م میں دلچسپی کیوں چھوڑ دی؟ اس نے آپ کو ا سکول کی کچی پکی کہانیاں سنانا کیوں چھوڑ دیں؟

یہ آپ کا بچہ آپ کو نہیں بتائے گا آپ کو پوچھنا پڑے گا اور کبھی کبھی تو پوچھنے سے زیادہ سمجھنا اورخود وجوہات تلاش کرنا زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ اس بار جب بچے اسکول جانا شروع کریں تو انکی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے ایک بار وقت نکال کر وین ڈرائیور سے بھی ذرا بات چیت کرلیں کیونکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ شخص کون ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جو سہولت محسو س ہورہی ہو وہ آپ کے بچے کی زندگی میں بکھرے رنگوں کو دھند لا کر رہی ہو۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar