ملیے بہاولپور کے ایک حیرت انگیز شخص سے


میں ان دنوں نیا نیا بہاولپور میں تعینات ہوا تھا اور شام کو اپنے کیمپ آفس میں بیٹھا ڈاک نکال رہا تھا کہ میرے پی اے، شاہد نے ایک پرانی نوٹ بک میرے سامنے لا رکھی۔ “یہ کیا ہے؟” میں نے نوٹ بک کھولے بغیر اس سے پو چھا۔ اس نے بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے، اُچ شریف کے کسی شخص کا حوالہ دیا کہ اس کی کچھ تحریریں ہیں اور اس نے آپ کے تاثرات اور آٹو گراف کے لئے بھجوائی ہے۔ میں نے صفحے پلٹتے ہوئے نوٹ بک پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی، کہیں کوئی آزاد نظم تھی، کہیں کوئی مختصر تحریر، اور کہیں کوئی آٹوگراف۔ میں نے وہ نوٹ بک شاہد کی طرف اچھال دی کہ واپس بھجوا دو، جس شخص کو میں جانتا ہی نہیں اس کے بارے میں کیسے تاثرات اور کیسے آٹو گراف! ذہنی کوفت بھی ہوئی کہ کس طرح اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں پھر سے کام میں جُٹ گیا، ویسے بھی وہ میری نئی نئی تعیناتی کے دن تھے اور ہمہ وقت مصروفیت گھیرے رکھتی تھی۔ جلد ہی وہ واقعہ میری یاداشت سے محو ہو گیا۔

ذاتی نمبر کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کا ایک سرکاری موبائل نمبر بھی ہوتا ہے، جس کا حصول کسی شہری کے لئے کوئی خاص مشکل نہیں ہوتا۔ جب سے وٹس ایپ کا رواج عام ہوا ہے، اس نمبر پر پیغامات موصول ہونے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عام طور پر نامعلوم نمبروں سے آنے والے پیغامات پڑھنے کا وقت نہیں ملتا تھا، البتہ رات کو سونے سے پہلے کبھی کبھی آنے والے پیغامات پر طائرانہ نگاہ ڈال لیا کرتا تھا۔ انہی دنوں میں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ ایک صاحب کے مختصر لیکن انتہائی پر اثر پیغامات بڑے تواتر سے موصول ہوتے تھے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ وہ صاحب روزانہ رات کو ایک آزاد نظم یا پیغام تشکیل دیتے تھے اور مجھے، اور یقیناً کچھ دوسرے لوگوں کو بھی، ارسال کر دیتے تھے۔

وہ صاحب بہت خوبصورتی سے اپنے لئے ’زمین زاد‘ کی ترکیب استعمال کرتے تھے بلکہ میں نے اس ترکیب کا استعمال، اور وہ بھی اس خوبی سے، سب سے پہلے انہی کے ہاں دیکھا۔ اپنی تحریروں میں وہ دیگر مصنفین اور شعرا ٔ کے حوالہ جات اکثر دیتے تھے جو ان کے وسیع مطالعہ کا مظہر تھے۔ اور تو اور کلاسیکی ادب بھی پڑھ رکھا تھا بلکہ ازبر تھا۔ صرف یہی نہیں، فنون لطیفہ کی دیگر اصناف سے بھی بھرپور شغف تھا۔ گئے دنوں کی غزلوں، گیتوں، گلوکاروں، حتٰی کہ موسیقاروں، کا بھی ان کی تحریروں میں اکثر ذکر ملتا تھا، بلکہ ان غزلوں، گیتوں کا بھی جنہیں سننے کا واحد ذریعہ گراموفون ہوا کرتا تھا۔

وہ صاحب، لکھاریوں، شاعروں، فن کاروں، گلوکاروں اور دیگر مشاہیر کی تاریخ سے بھی واقف تھے اور کبھی کبھی کسی کی سالگرہ یا برسی کے حوالے سے بھی پیغامات بھیجا کرتے تھے۔ موسموں کے بدلتے تیور اور دنوں کی الٹ پھیر کے معاملات میں بھی خاصے حساس معلوم ہوتے تھے۔ ساون کی بھیگتی شام ہو یا جاڑے کی ٹھٹھرتی رات، بہار کی معطر فضائیں ہوں یا خزاں کے پتوں کی چرچراہٹ، سب مناظر ان کے الفاظ میں جھانکتے نظر آتے تھے۔

روایات کے امین معلوم ہوتے تھے، ایک روز پڑھا کہ عرصہ بیس سال سے سر ڈھانپ کر رکھتے تھے کہ یہ حیا اور وضعداری کا تقاضا تھا۔
ناسٹلجیا کا شکار نظر آتے تھے لیکن اس یادِ ماضی کو بوجھ نہیں اثاثہ جانتے تھے۔

ان کی تحریروں پر غور کرنے سے یہ بھی پتا چلتا تھا کہ ان کا تعلق معاشرے کے خوشحال طبقے سے نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ اپنی سادہ زندگی اور اس سے جڑی روایات پر بہت مطمئن، بہت قانع، بلکہ نازاں و فرحاں نظر آتے تھے۔ چارپائی، لحاف، ریڈیو، لالٹین، اور اس نوع کے دیگر لوازمات کا ذکر اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ اس دور میں بھی وہ سب کچھ ان کے استعمال میں تھا۔ اُن کی چائے آج بھی سلگتی لکڑیوں پر دھری کیتلی میں پکتی تھی!

وہ کبھی سردیوں کی شاموں میں چائے سے حظ اٹھاتے نظر آتے تو کبھی رات کے پچھلے پہر کسی شجر میں اٹکے چاند کو تکتے۔ وہ آپ کو زمانوں کی سیر پر بھی لے نکلتے تھے۔ آپ اس پل یہاں ہوتے تھے تو وہ الفاظ کے ذریعے آپ کا ہاتھ تھا متے، دوسرے پل آپ کو پچھلے اور سادہ زمانوں میں لے جاتے تھے۔ آپ کہیں پیپل کے پیڑ تلے منجی پہ بیٹھے، رہٹ کی آواز سنتے، سرسوں کے ساگ کے ساتھ، مکھن میں ’چوپڑی‘ تندور کی روٹی، اپنی بھاگ بھری کے ہاتھوں کھانا شروع کر دیتے تو کبھی کچے مکان کی چھت پر کھلے آسمان تلے، بان کی چارپائی پر، سر تلے بازو رکھے، تاروں پر نظریں مرکوزکیےکہیں کے کہیں جا پہنچتے تھے۔ اور یہ سب کچھ، سب کا سب کچھ، وہ طویل تحریروں کے ذریعے نہیں، محض چند لفظوں، چند جملوں، یا یوں کہئے مختصر سی آزاد یا نثری نظم کی صورت میں، جسے وہ نثم کا نام بھی دیتے تھے، بیان کرتے اور یہ جا وہ جا!

ایک سرد شام کہنے لگے:
‘نزع میں لپٹی جنوری کی دھندلی ساعتیں۔ اوس میں بھیگی شبنمی رات، خمو ش، گم سم، یخ بستہ۔ مدہم چاند۔ اور ایسے میں چہار سو بکھری اک بے سبب اداسی۔ ایک زمین زاد، تنہا چاند کے ساتھ ساتھ، طویل، ویران سڑک پر، سیلن زدہ یادوں کے ورق در ورق پھڑپھڑاتے البمز کھولتا چلا جا رہا ہے کہ

سردیوں کے موسم میں
یاد کی زمینوں پہ
اتنی دھول اڑتی ہے
آنکھ کے کناروں پہ

سارے خوش نما منظر
دھندلا سے جاتے ہیں
کچھ نظر نہیں آتا
سردیوں کے موسم میں

بے سبب ہی آنکھوں میں
کچھ نمی سی رہتی ہے
زندگی مکمل ہو،
پھر بھی ذات میں جیسے
کچھ کمی سی رہتی ہے
سردیوں کے موسم میں ’

23 مارچ کو گویا ہوئے:
‘اسلام کے
ناقابلِ تسخیر ایٹمی قلعے میں
بھوک سے مرتے
کچرے سے کھانا چنتے
علم و صحت کو ترستے
جہالت و بے روزگاری کی آگ میں سڑتے

پھندوں سے لٹکتے
چوراہوں میں پھٹتے
سنگسار ہوتے
زیادتی کے بعد قتل ہوتے

بغیر مقدمہ کئی کئی سال جیلوں میں رلتے
جعلی پولیس مقابلوں میں پھڑکتے
حصول انصاف کے لئے سسکتے

آئین کی سبز کتاب میں دفعہ1 سے 28 تک کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے بلکتے
درندگی اور شرمندگی کے درمیان پھنسی زندگی کے ساتھ روزوشب سلگتے
فکر و خیال و ضمیر و احساس کے آزار پہ لٹکی مقبوضہ روحوں کے گم شدہ جسموں میں تڑپتے
“آزاد“ لوگوں کو
یوم پاکستان ”مبارک!“

اس قول کو ملاحظہ کیجئے:
‘قلم سے نکلی ہوئی گولی صدیوں کا سینہ چیرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ‘
اور ایسا اور بہت کچھ۔

رفتہ رفتہ مجھے ان کی عادت سی ہی ہوگئی، سونے سے پہلے ان کے میسج کو ڈھونڈتا، لطف اندوز ہوتا، دل ہی دل میں داد دیتا، اور پھر نیند کی چادر اوڑھتا۔
اب ان کے نام سے بھی آشنائی ہو گئی تھی، ’زمین زاد‘ کو نعیم ناز کہتے تھے، البتہ کون تھے یا کہاں کے رہائشی تھے، جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ ملاقات کروں گا لیکن سوچ، عمل میں نہ ڈھل سکی۔

پھر ایک روز اچانک میرے تبادلے کا پروانہ آگیا۔ جانے سے پہلے، مجھے اپنے کاموں کو اب جلد از جلد سمیٹنا تھا۔ اور پھر یار لوگوں نے آخری رات ہماری رسماً الوداعی تقریب بھی منعقد کرنا تھی۔ شاہد تقریب کا دعوت نامہ لے کر آیا تو میں نے نعیم سے ملنے کے ارادے کو ظاہر کیا۔

شاہد زیرلب مسکرایا، ہمیشہ کی طرح انتہائی احترام سے گویا ہوا، ‘سر، یہ وہی شخص ہے جس کی نوٹ بک آپ نے واپس کر دی تھی‘۔ میں دم بخود رہ گیا۔
‘شاہد، ایک بات بتاؤں، یہ شخص اس وقت کا بہت بڑا لکھاری ہے‘۔

‘اجازت دیں تو میں بھی ایک بات بتاؤں‘ کم گو شاہد اس روز ہمت کرتا نظر آیا، ‘یہ شخص محض میٹرک پاس ہے‘۔
حیرت کا ایک پہاڑ تھا جو میرے پر آن گرا اور روایتی تعلیم کا بت بھی اس کے کہیں نیچے آکر پاش پاش ہو گیا۔ بڑے بڑے عالموں، فاضلوں پر بھاری نعیم ڈگریوں کے حوالے سے تہی دامن تھا۔
‘غریب آدمی ہے، مزید تعلیم حاصل نہیں کر پایا‘۔
کمرے میں ایک بوجھل سی خاموشی چھا گئی۔

‘اس لسٹ میں نعیم کا نام بھی شامل کر لو‘ میں نے سرکاری افسران، عوامی نمائندگان اور معززینِ شہر کے ناموں پر مشتمل مہمانوں کی لسٹ اس کی طرف بڑھا دی۔
‘واقعی سر؟ ‘ شاہد کی آواز میں ایک بے یقینی تھی۔
میں نے استفہامیہ انداز میں اسے دیکھا۔
‘میونسپیلٹی کا ایک سینٹری ورکر ہے یہ شخص، سر‘ شاہد نے ایک اور دھماکہ کیا۔

اس نے تو سینیٹری ورکر کی اصطلاح استعمال کی لیکن میرے ذہن نے ازخود ہی اس کا اردو ترجمہ کر دیا۔ شاہد مزید بتانے لگا نعیم مطالعے کا شائق ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت، میونسپل کمیٹی کے ایک خالی کمرے میں لائبریری قائم کر رکھی ہے، کچھ اپنا پیٹ کاٹ کر سیکنڈ ہینڈ کتابیں خرید لاتا ہے، کچھ کبھی کبھی مخیر حضرات اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔ نعیم کا اپنا شوق بھی پورا ہوتا رہتا ہے اور اُچ شریف کے لوگوں کو بھی لائبریری کی سہولت مہیا ہو گئی ہے۔

میں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے شاہد کو کہا کہ نعیم کو کہنا کہ اپنی نوٹ بک ضرور لیتا آئے۔
وقت کی الٹ پھیر دیکھئے کہ جس نوٹ بک کو میں کھولنے کا بھی روادار نہیں تھا، آج اس میں اپنے دستخط ثبت کرنے کا اعزازحاصل کرنا چاہ رہا تھا۔

شاہد کے کمرے سے جانے کے بعد میں نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ قدرت کی ستم ظریفی بھی دیکھئےکہ اس قدر صلاحیتوں کے باوجود، اتنا خوبصورت لکھاری، لفظوں اور جملوں پر ایسا عبور رکھنے والا، اتنے بہترین ذوق کا حامل، ایسا با شعور اور حساس شخص، مواقع نہ ملنے کے سبب، انتہائی گمنامی میں عمر بسر کر رہا تھا اور ایک دن اسی طرح خاموشی سے راہی ملکِ عدم ہو جائے گا۔ اک اور غنچہ بن کھلے ہی مرجھا جائے گا۔ اور دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے کم صلاحیتوں کے لوگ محض پیدائش کے حادثے کے سبب، وہ مقام بھی پا لیتے ہیں جس کے حقیقتاً مستحق نہیں ہوتے۔

لکھ لیجیے صاحب، اگر زندگی اسے طباعت اور اشاعت کے مواقع دیتی تو آج کے بڑے بڑے نام اس کے آگے دم بھرتے نظر آتے!
پھر خیال آیاکہ جیتے جاگتوں کی قدر کرنا تو ویسے بھی ہمیں نہیں آتی، ساحر ہو یا منٹو، ہمارا معاشرہ تو صحیح معنوں میں کسی کی عظمت کا اعتراف اس کے مرنے کے بعد ہی کرتا ہے۔

اس رات تقریب میں میری نظریں اسے تلاش کرتی رہیں۔ میں زیادہ تر مہمانوں کو پہچانتا تھا سو کسی اجنبی چہرے کی کھوج میں تھا۔ شاہد میری کیفیت کو بھانپ رہاتھا اور خود اس کی نظریں بھی پنڈال کا بے چینی سے طواف کر رہی تھیں۔ پھر وہ لمحہ آ ہی گیا۔ ’سر، یہ نعیم ناز ہیں‘۔ نعیم نے اپنی غیر موجودگی میں تو کئی دفعہ مجھے حیرت زدہ کیا ہی تھا، موجودگی میں بھی اپنی روش نہ بدلی۔ گئے زمانوں کی باتیں کرنے والا، اپنی تحریروں میں اس قدر پختگی رکھنے والا، عُمر کے پیمانے پر ہرگز پختہ نہیں تھا۔ اپنے مطالعے کی وسعت کے مطابق اسے ادھیڑ عمر کا ہونا چاہیے تھاجبکہ وہ صدیوں کا مسافر تو بمشکل ابھی تین دہائیاں ہی طے کر پایا تھا، تیس بتیس سال کا ہو گا۔ میں اسے انتہائی گرمجوشی سے ملا۔ ’ہم نے آپ سے ایک گزارش بھی کی تھی‘۔ ’جی میں بھُولا نہیں‘ اس نے وہی بوسیدہ سی نوٹ بک میرے حوالے کر دی جسے میں نے بعد میں لوٹانے کا وعدہ کر کے شاہد کے سپرد کر دیا۔

تقریب کی نوعیت کے اعتبار سے اُس رات میں شمعٔ محفل تھا اور سب مہمانوں کا مطلوب و مقصود بھی، سو نعیم سے دوبارہ بات چیت نہیں ہو سکی، ہاں ایک دو بار نظریں ملنے پر مسکراہٹوں کا تبادلہ ضرور ہوا۔

تقریب رات گئے اختتام کو پہنچی اور مجھ سمیت زیادہ تر مہمان اپنی گاڑیوں میں رخصت ہوئے۔ واپسی کے راستے پر میں نے شہر کے درو دیوار پر الوداعی نظر ڈالنا شروع کر دی۔ ابھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ فٹ پاتھ پر ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ گاڑی رکوائی کہ نعیم اس گھڑی کس طرح اُچ شریف لوٹے گا۔ اس نے میری تشویش پر تشکر کا اظہار کیا اور بتانے لگا ایک دوست کو فون کیا ہے، وہ شہر آیا ہوا تھا، اسی کے ساتھ لوٹ جاؤں گا۔ انا میں گُندھا وہ شخص نہ جانے درست کہہ رہا تھا یا نہیں، ہم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا، سڑک پر بڑی بڑی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے لوگ رواں دواں تھے، اور سڑک کنارے گرد اور دھویں سے بے نیاز، اپنے قد سے کہیں بڑا ایک شخص کچھ دور تک مجھے نظر آتا رہا پھر جنوری کی دھندلکی رات میں گم ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).