ڈیمز بنانے کا بہانہ‌


”ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں“ یہ کہنا ہے جسٹس عمر عطا بندیال کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ریاست اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ تو کیا یہ کھلا کھلا اعتراف نہیں ہے کہ یہ لوگ کھلم کھلا حکومتی اور ریاستی امور میں مداخلت کر رہے تھے؟

اس سے پہلے جسٹس صاحب جو فیصلے کر رہے تھے کیا ان کی نوعیت سیاسی نہیں تھی؟
اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس کو سیاسی فیصلے کرنا چاہئیں؟
اگر چیف جسٹس صاحب کو سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار ہے تو پھر وزیر اعظم کو بھی عدالتی فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

کبھی بادشاہ چیف جج بھی ہوا کرتا تھا یہ جمہوریت ہے کہ جس نے عدالتی اور سیاسی معاملات کو الگ الگ ڈیل کرنے کا کہا۔ دونوں کی ڈومین الگ الگ مقرر کی۔ سیاسی فیصلوں اور پبلسٹی کا اختیار وزیراعظم کو دیا قانونی تصفیوں کا اختیار عدالتوں کے سپرد کیا اس کے ساتھ ہی عدالتوں کو متنازع ہونے سے بچانے کے لئے ججوں پر تنقید کا اختیار چھین لیا۔ تنقید صرف اسی صورت روکی جا سکتی تھی کہ ان سے پبلسٹی کا اختیار ختم کر دیا جائے۔

جس طرح حکومت کو عدالتی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا عین اسی طرح چیف جسٹس کو بھی سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔

جب چیف جسٹس صاحب ڈیم بنانے نکلے تھے تو کیا بدخواہ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ واپڈا کی ڈیم کمیٹی کے سربراہ بننے کی ایک کوشش تھی کہ جس کے لئے یہ راہ ہموار کی جا رہی تھی؟ یہ ایک ایسی نوکری ہے کہ نہ ڈیم بنتا نہ نوکری ختم ہوتی۔ اگر بل فرض محال یہ ڈیم پوری تگ و دو کے بعد وقت پر بن بھی جائے کہ جس کی بظاہر نیلم۔ جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی طرح وقت پر بننے کی کوئی امید نہیں ہے پھر بھی کم از کم اس ڈیم کی تعمیر کے لئے آٹھ سے نو سال درکار ہوں گے تو کم از کم ان آٹھ نو سال کے لئے نوکری پکی تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اپنی نوکری ختم ہونے کا خوف ان پر پہلے ہی طاری ہو چکا ہے جس کا وہ اظہار بھی کر چکے۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں اب موصوف فرما رہے ہیں کہ عدالتی نظام میں بہتری بتدریج آتی ہے اور یہ ڈیم بنانا ان کا کام نہیں ہے۔ اس کایا کلپ کی وجہ کیا یہ ہے کہ لوگوں نے ان پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے اس فنڈ میں پیسے ہی نہیں دیے؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے زبردستی تنخواہ کاٹ کر اس فنڈ میں پیسے جمع کروائے گئے پھر بھی صرف چند کروڑ روپے اکٹھے ہوئے۔ اکٹھی ہونے والی تمام رقم چند کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اب اگر عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ ان کا کام نہیں تھا۔ تو کیا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہ کام انہیں زبردستی منڈھا گیا تھا یا یہ کام کسی اور کی منشاء کے مطابق ہو رہے تھے؟

اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمیں تو یہ ہی نہیں پتا کہ ڈیم کا ڈیزائن کیا ہو گا۔ اس کا ٹھیکہ کسے دینا ہے اور تواور لوگوں نے الیکشن کی وجہ سے پیسے نہیں دیے۔ مزید یہ کہ ڈیم کی تعمیر کے لئے درکار رقم ہماری استطاعت سے زیادہ ہے۔

اب اس سادگی پہ کیوں کوئی مر نہ جائے کہ پہلے تو بڑا گھمنڈ تھا کہ ہم ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ لوگوں نے فنڈ میں پیسے نہ دے کر آپ کے فیصلے پر عدم اعتماد کا اعلان کیا ہے۔ آپ پنجاب کمپنیز کے چیف ایگزیکٹوز سے زیادہ تنخواہ لینے کے حوالے سے ان سے پیسے واپس طلب کر رہے ہیں کہ یہ قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ تو اس ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جو پبلسٹی پر خرچ آیا ہے اس کی ریکوری کیسے ہو گی کیا یہ سرکاری پیسے کا ضیاع نہیں ہے؟
اب اس پیسے کے ضیاع پر اپ کس کو سزا دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).