ستر سال سے الیکشن کی شفافیت کی بحث جاری ہے


قیام سے آج تک سیاسی حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تین چوتھائی شفاف انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار کی پرُاَمن عدم منتقلی ہے۔ 70برسوں میں ہونے والے کسی بھی انتخاب کے نتائج کو متفقہ طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ پوری قوم برسوں سے اس بحث میں ہے کہ کیا پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی سرکاری ریاستی اداروں کی مرضی سے ہوتی ہے یا یہ عوام کی منشاء سے؟ بدقسمتی سے 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات کے نتائج پر بھی اتفاق رائے دکھائی نہیں دے رہا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کنٹرول میں کام کرتی ہے۔ ریاستی نظام بہت مظبوط اور مستحکم ہے جو تبدیل کرنا نا ممکن ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں میں اس نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے اطاعت قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ الیکشن میں وہ اپنی حکومت اپنی مرضی سے اپنے ووٹ سے بناتے ہیں مگر پاکستانی عام انتخابات میں اتنی خوشبو نہیں آتی۔ یہاں ابھی تک یہی ثابت نہیں ہوا کہ کہ ووٹ طاقت ور ہے یا اقتدار انتخابات میں دھاندلی کے نتیجہ میں ملتا ہے۔

پاکستان میں 1970میں ہونیوالے انتخابات ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوئے۔ عام طور پر 1970کو ہونے والے انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف قرار دیا جاتا ہے ان انتخابات میں عوامی لیگ نے (مشرقی پاکستان سے) 167، ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 80نشستیں حاصل کیں۔ ان شفاف انتخابات میں سب سے بڑی دھاندلی یہ کی گئی کہ اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت تک نہ دی گئی۔

سیاسی تاریخ میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 99 فیصد نشستیں حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا تھامگر پاکستانی حکمرانوں کی جمہوریت کی تعریف مختلف ہے سب سے بڑی جماعت کو حکومت نہ دی گئی اس کے بر عکس ملک دو لخت ہونا منظور کر لیا اور 167کے مقابلے میں 80 نشستوں والے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا چوتھا صدر بنا دیا گیا جنہوں نے ملک کے پہلے غیر فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چارج سنبھالا جس سے ان انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدارانہ کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

7مارچ 1971کے انتخابات میں 9 سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی این اے حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے مدمقابل تھا۔ پی پی پی نے عام الیکشن میں 155 اور اپوزیشن اتحاد پی این اے نے 36 نشستیں حاصل کیں۔ الیکشن کے ساتھ ہی دھاندلی دھاندلی کا راگ عام ہوا اور پاکستان نیشنل الائینس نے 10مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور اس الیکشن کا انجام 5 جولائی1977میں جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء تھا جو 11برس جاری رہا۔

فروری 1985میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی چھتری میں پاکستان میں پہلی بار غیر جماعتی پارلیمانی عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کا شور نہ ہوا کیوں کہ جنرل ضیاء کے سامنے ایسا کرنا تقریباً نا ممکن تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی حقیقی روح کا ساتھ دیتے ہوئے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا جس کی سزایہ ملی کہ ملکی سیاست میں الیکٹ ایبل کی نئی فوج تیار ہوئی جو آج بھی پاکستانی سیاست اور الیکشن پر قابض ہے۔ یہاں سے ہی ایک غیر جمہوری جنرل ضیاء الحق کی گود سے سیاسی قیادت نواز شریف نے ملکی سطح کی سیاست میں جنم لیا۔ اس الیکشن کے نتیجہ میں محمد خان جونیجو پاکستان کے دسویں وزیر اعظم بنے مگر دورہ چین سے واپسی پر ائیر پورٹ اسلام آباد میں وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش کر دیے گئے۔ وزیر اعظم کی ایسی سبکدوشی سے ان انتخابات کی حقیقت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

1988کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاء کی باقیات قرار دیتے نواز شریف کی قیادت میں بننے والے 9جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد کو شکست دی اور 93نشستیں حاصل کیںمگر اکثریتی نشستوں کے باوجود صدر اسحاق خان پی پی پی کو حکومت بنانے کی دعوت نہیں دے رہے تھے۔ معلوم نہیں انہوں نے کس مجبوری سے 4 دسمبر1988سے بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا حلف لے لیا۔ ان انتخابات کے نتائج کی قدر یوں کی گئی کہ اگست 1990میں بے نظیر کی حکومت صدر پاکستان اسحاق خان نے ہی خود حکومت گرا دی۔ یہ بھی سیاسی تاریخ کا عظیم واقعہ تھا کہ نوائے وقت اخبار نے بے نظیر حکومت کے ہوتے یہ خبر شائع کر دی تھی کہ حکومت کل ختم ہو رہی ہے۔

1990کے انتخابات میں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کو قومی اسمبلی سے 106اور پیپلز پارٹی کو صرف 44 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ وہی انتخابات ہیں جس کے حوالے سے اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ میں ریاستی اداروں کے سابق سربراہوں سے بیان حلفی میں مانا کہ الیکشن سے پہلے عوامی ٹیکس کا سرمایہ پی پی پی مخالف جماعتوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں نواز شریف کا نام بھی ہے جو اسی الزام کے بعد بھی 2 دفعہ وزیر اعظم پاکستان بنے۔ بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کا شور مچایا مگر روایت کے مطابق کسی نے ایک نہ سنی۔ بے نظیر بھٹو کی طرح وزیر اعظم نواز شریف اور صد راسحاق خان کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف اور اسحاق خان دونوں کو بطور وزیر اعظم اور صدر استعفٰی دینا پڑا۔

1993کے انتخابات میں عام سوچ یہی تھی کہ نواز شریف تو اس الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا ہونا ہوتا تو اس کی حکومت کیوں ختم کی جاتی۔ یوں منطقی طور پر 1993کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ اس بار صدر لغاری کو پتہ چل گیا کہ بے نظیر حکومت کرپٹ اور پاکستان کے لیے خطر ناک ہے۔ لہٰذا صدراسحاق کی طرح صدر لغاری نے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا اور نئے انتخابات کا اعلان بھی کر دیا۔ عام انتخابات سے پہلے ہی عام آدمی کو علم بقا کے انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی کا کوئی جواز نہیں۔ لہٰذا 1997کے عام انتخابات میں کا میابی صرف نواز شریف کو ہی ملے گی۔ عام آدمی کی سوچ درست ثابت ہوئی۔ 1997کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 135قومی اسمبلی سے نشستیں حاصل کر لیں اور سچ مچ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔ عام انتخابات کے نتیجہ میں بننے والے وزیر اعظم کو اکتوبر 1999میں سبکدوش کر دیا گیا اور بعد میں 10برسوں کے لیے سعودی عرب روانہ کر دیا۔

پاکستان میں فوجی حکمران بھی جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء کی طرح جنرل مشرف نے بھی جمہوریت کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے 2002میں عام انتخابات کا انعقاد کیا۔ 2002 کے انتخابات کی یادگاروں میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ شامل ہیں۔ ان انتخابات میں نہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نہ مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ق) 118نشستوں کے ساتھ بر سرِ اقتدار آگئی۔ جنرل مشرف صدر اور مسلم لیگ (ق) نے ان کے سائے میں 5سال پورے کر لیے۔ کیوں کہ اس وقت صدر پاکستان آرمی چیف بھی تھے؟

2008کے انتخابات بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے 122اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے92نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ 5سال حکومت کرنے والی مسلم لیگ (ق) کہاں گئی۔ ان انتخابات کے شفاف ہونے کی بحث اپنی الگ۔ سابق امریکی وزیر خارجہ رائس ریکارڈ پر موجود ہیں کہ امریکہ نے 2008کے انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس حوالے سے جنرل مشرف پوری طرح آگاہ تھے۔

2013کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 166جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 42نشستیں حاصل کیں۔ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ ان انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ نے یہ الزام عائد کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور جنرل کیانی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مہربانی سے مسلم لیگ (ن ) انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ انہی انتخابات کو دھاندلی قرار دیتے عمران خان نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا اسلام آباد میں دیا جس میں الیکشن اور حکومت دونوں کو صرف اور صرف جعلی قرار دیا گیا۔

25جولائی 2018انتخابات کو گزرے ابھی چند دن بھی نہیں ہوئے مگر تحریک انصاف کے علاوہ تقریباً تمام جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس حوالے سے بے شمار خبریں اور تجزیے شائع ہو رہے ہیں۔ ابھی تک 2018کے انتخابات کے نتائج پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوا۔ 70سال پرانی بحث پھر وہی کی وہی ہے کہ کیا پاکستان میں شفاف الیکشن نہیں ہو سکتا؟ ہمارے ہاں حکومت ووٹ سے ملتی ہے یا یہ فیصلہ ریاستی ادارے کرتے ہیں؟ سیاسی جماعتیں اس قابل ہیں کہ اس نظام میں ووٹ کی طاقت سے کامیاب ہوں؟ ابھی تک یہ سارے سوالات اپنی جگہ پر قائم ہیں اور درست جوابات کے انتظار میں ہیں۔

مگر سچ یہ ہے کہ جمہوریت کا راستہ صاف شفاف غیر جانبدار انتخابات سے ہی جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا منصفانہ انتخابات کے بغیر ایک سچی حقیقی عوامی حکومت کا قیام ممکن ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).