نئے پاکستان میں نیا بلوچستان


بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر اگر اجمالاً نظر دوڑائی جائے تو ابتدا ہی سے اسے یہاں اصل نمائندوں کی بجائے مصنوعی قیادت سے چلایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں کرپشن اور بری حکمرانی رواج پا گئی ہے۔ حکمرانوں اور عوام میں بد اعتمادی کی ایک وسیع خلیج پیدا ہوئی ہے۔ نیز قیادت کا بھی ایک بحران سا پیدا ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ اکثر سیاسی لوگوں پر سے عام افراد کا یقین اٹھ گیا ہے۔ کیوں کہ وعدے سب کرتے ہیں مگر بعد میں ان کا ایفا بھول جاتے ہیں۔ اقتدار میں پہنچ کر بظاہر عوام کے ذریعے منتخب سیاسی لوگ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے وسائل بڑھانے اور وزارتوں کی حصول میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں صرف بی این پی ہی ایک پارٹی رہ گئی ہے جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ عوام میں جڑیں رکھتی ہے اور عوام کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، جس کا مطمع نظر اقتدار کی بجائے عوام اور ان کے مسائل کا حل ہے۔ نیز عوام کے لیے کچھ کرنے کا حقیقتاً ارادہ رکھتی ہے۔ اس کی قیادت کرنے والے سردار اختر مینگل سے لوگ دل سے محبت رکھتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کے میدان میں بلوچ معاشرے میں اگر کوئی سیاسی شخصیت مقبول ہے اور ان پر اعتماد کیا جارہاہے تو وہ اختر مینگل صاحب کی ذات ہے۔ اس کی وجہ ان کا گزشتہ بیس سالوں کا سیاسی کردار، جدوجہداور قربانیاں ہیں۔

دو ہزار چھ میں نواب بگٹی کے ریاستی قتل کے بعد وہ پارلیمانی سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی مستعفی ہوگئے تھے (تاہم بعد ازاں دو ہزار تیرہ میں پھر پارلیمان میں آگئے)۔ اس کے بعد وہ مشرفی آمریت کے عتاب کا شکار ہوئے جیل گئے، ان کی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کرنے کا ایک نہ تھمنے والا بھیانک سلسلہ شروع ہوا۔ حتیٰ کہ ان کے پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری حبیب جالب، جو پارٹی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے کو بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا۔ ان سب کے باوجود سردار صاحب اپنی سیاسی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائے اور اپنی بساط کی حد تک جدو جہد جاری رکھی۔ اسی مداومت اور استقامت نے انھیں بلوچوں کا مقبول رہنما بنا دیا ہے۔ ان کی اسی عوامی سیاست اور سخت موقف کی وجہ سے مقتدر قوتیں ان پر اعتماد نہیں کرتیں۔

دو ہزار تیرہ میں ان کے مطابق ان کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ چنانچہ وہ پارلیمنٹ میں ہونے کے باوجود پارلیمان سے عملاً دور رہے۔ تاہم عوام سے رابطہ قائم رکھا۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے پہلے جب بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تو تجزیہ نگاروں نے فوراً کہہ دیا کہ یہ قوم پرستوں، خصوصاً اختر مینگل کا راستہ روکنے یا سیٹیں کم کرنے کا ایک جدید تر اور زیادہ تیکنیکی حربہ ہے۔ کیوں کہ یہ ان لوگوں پر مشتمل جماعت ہے جنہوں نے ہمیشہ وفاق پرست اور مقتدر قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے والے طرز کی سیاست کی ہے۔ ان کی پارٹی کے نام میں پاکستان کی بجائے بلوچستان شامل ہونا ایک اچھنبے کی بات تھی جو ایک مرکز پر یقین رکھنے والے کی نظر میں صوبائیت اور تعصب کے فروغ کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ اس کے اصل یا پوشیدہ اغراض و مقاصد ایک دم سمجھ میں آگئے۔

علاوہ ازیں اس میں جو لوگ شامل ہیں وہ کسی نظریاتی اور فکری ہم آہنگی کے نتیجے میں نہیں بلکہ زبردستی یا مفاداتی طور پر یکجا کیے گئے ہیں یا ہوگئے ہیں۔ اسی لیے الیکشن مہم کے دوران ایک شخص اپنی پارٹی کے ساتھی کی بجائے اس کے مخالفین کی حمایت کر رہا تھا۔ اور اب وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں بھی ان کے درونِ خانہ اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان سب کے باوجود اختر مینگل صاحب سات صوباٰئی اسمبلی اور تین قومی اسمبلی کی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے بقول مزید چھ صوبائی اور چھ قومی اسمبلی کے حلقوں میں ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ انھیں حکومت سے روکا جاسکے۔

اختر مینگل سے جو رویہ اختیار کیا جا رہاہے یہ جمہوریت اور وفاق کے لیے ایک نقصان دہ عمل ہے اس کے نتائج ہمیشہ منفی اور بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ ہارلیمانی سیاست سے یاس آمادہ ایک جماعت جب پھر سے پارلیمان میں آگئی ہے اسے محض اس بنیاد پر پاور سے روکنے کی بالواسطہ کوشش کرنا کہ وہ بعض قوتوں کے لیے ناپسندیدہ ہے یا ان کی شراٰئط پر شراکتِ اقتدا کے لیے تیار نہیں ہے۔ وفاق اور اکائیوں کے درمیان بدظنی پیدا کرنے کا موجب بنےگا۔ اسی طرح یہ پارلیمانی طرز سیاست سے مایوسی کے جذبات کو پھرسے جنم دے گا۔ ویسے بھی بلوچستان میں اب بھی پارلیمانی سیاست ایک غیر مقبول اور بے نتیجہ سیاسی مشق گردانی جاتی ہے جس کا انجام بدنامی، ناکامی اور عوام کی ناراضی کی صورت میں برامد ہوتا رہا ہے۔

ایسے میں اختر مینگل جیسی شخصیت کا پارلیمانی سیاست کی طرف لوٹنا وفاق اور مقتدر قوتوں کے لیے غنیمت ہے کہ جن کے متعلق ابھی تک عوام میں اعتماد کے جذبات پائے جاتے ہیں اور ان کے نوجوان کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان بھر میں موجود ہے۔ چنانچہ ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کے کو برداشت کرنے کی گنجائش پیدا کرنا ہی ایک کثیرالنسلی ملک میں آپسی مطابقت پیدا کرنے کی طرف مددگار عمل ہوگا۔ واضح رہے کہ گوادر جو سی پیک کا مرکزی مقام ہے، اس کی صوباٰئی نشست پر بی این پی کے حمل کلمتی اور قومی نشست (گوادر۔ لسبیلہ) پر خود اختر مینگل کامیاب ہوئے ہیں۔ یعنی ان علاقوں کے عوام نے ان پر اعتماد کرکے اپنا حقِ نمائندگی انھیں سونپ دی ہے۔

ایسے میں وقت و حالات کا تقاضا یہ ہے کہ قوم پرست جماعتوں کے تحفظات اور شکایات کو زیر بحث لا کر اعتماد سازی کی نئی شروعات کی جائے۔ اس کے لیے فضا بھی اس لیے سازگار ہے کہ وفاق میں ایک ایسی جماعت عنان اقتدار سنھبالنے جارہی ہے جو نئے ہاکستان کا نعرہ لگاتی ہے۔ چنانچہ نئے پاکستان میں محرومیوں، اور نظر اندازی پر مبنی رویوں کا شکار صوبے کی عوام کے ساتھ ماضی کو بھول کرنئے تعلقات استوار کیے جائیں۔ اس کو عملی رنگ دینے کے لیے اختر مینگل کی صورت میں ایک ایک اچھی شخصیت اور عام انتخابات کے بعد ایک بہترین موقع موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).