آصف زرداری خوفزدہ ہیں


عیدالاضحی کی آمد آمد ہے، منڈیاں عروج پر ہیں ٹریڈنگ ہو رہی ہے، خرید و فروخت جاری ہے بولیاں لگ رہی ہیں۔ قربانی کے لیے اپنے من پسند بکروں کا افادیت کے حساب سے سودا طے ہو رہا ہے۔ رسیاں منگائی جا رہی ہیں، رسیدیں کاٹی جا رہی ہیں، جو بک چکا وہ کھونٹے لگایا جا چکا باقیوں کی خدمتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر بیوپاری بھی اپنے مال کو اونچی قیمت دلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ طرح طرح کے ٹوٹکے آزمائے جا رہے ہیں، آسائش، آرام سکون، موسم کی سختی، خوراک، آنے جانے کے لیے لگڏری ٹرانسپورٹیشن، غرض ہارس ٹریڈنگ کے سارے مروجہ اصول مثالوں سمیت آشکار ہو رہے ہیں۔ عوام حسب معمول بوکھلاہٹ اور گڑبڑاہٹ کا شکار ہیں۔

اس ہاہا کار میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، ، آنیاں جانیاں خدمتیں ایسی کے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ ہونے کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ملک میں سیاسی ماحول بھی گرم ہے لہذا درج بالا کسی بھی فعل سے مماثلت محض اتفاقی ہی ہو گی۔ تحریک انصاف آزاد امیدواروں سمیت ایم کیو ایم کو حکومتی کشتی پر سوار کرانے کے اشارے دے چکی، ادھر پیپلز پارٹی پھر زیر عتاب ہے۔ کل تک بلاول کو بھٹو کی بجائے زرداری زرداری پکارنے والے آج تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بھٹو کا وارث ضیاء کے وارث کو ووٹ دے گا۔

جہاں مرشد حیدر جاوید سید اور علی اکبر ناطق جیسے دوست پیپلز پارٹی کے اس رویے پر شاکی ہیں، وہاں برادرم نور درویش کہتے ہیں کہ ابھی کچھ روز قبل ہی کی بات ہے جب پیپلزپارٹی کے سوا تمام جماعتوں نے الیکشن کے اگلے ہی روز اے پی سی بلا کر الیکشن نتائج مسترد اور دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ساتھ میں احتجاج کا اعلان بھی کیا تھا۔ شہباز شریف نے ایک روز کی مہلت مانگی تھی۔ فضل الرحمن نے حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ ان سب نے اور ان کے جملہ فالوورز نے مل کر پیپلزپارٹی پر سخت تنقید بھی کی تھی جس نے احتجاج اور اپوزیشن کے لئے پارلیمنٹ جانے کا اعلان کیا تھا۔ ان سب کا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی غلط ہے اور یہ سب صحیح۔ تحریک انصاف کے فالوورز کے نزدیک اس وقت پیپلزپارٹی کا فیصلہ ”لائق تحسین“ تھا۔

لیکن پھر اچانک سب کا ارادہ بدلا، سب نے اتفاق کیا کہ پیپلزپارٹی کی طرح یہ بھی پارلیمنٹ میں آئیں گے اور مضبوط اپوزیشن کی بنیاد رکھیں گے۔ لہذا ایک بات تو واضح ہوگئی کہ پیپلزپارٹی کسی کے پاس نہیں گئی بلکہ یہ سب پیپلزپارٹی کے پاس آئے۔ پیپلزپارٹی نے تو الیکشن کے اگلے روز ہی بتا دیا تھا کہ وہ احتجاج کے لئے پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کرے گی۔ مسئلہ تو ان کا تھا جو احتجاج سڑکوں پر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اب جب کہ یہ تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کو فالو کرتے ہوئے پارلیمنٹ آنے پر رضامند ہوگئی ہیں اور بلاول کے پہلے دن بیان کیے گئے مضبوط اپوزیشن والے موقف پر متفق ہوگئی ہیں تو لیڈر آف اپوزیشن کا حق تو بہرحال اسی کا بنتا ہے جس کی عددی اکثریت تحریک انصاف کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ یہ اصولی بات ہے۔ لہذا ”بھٹو کا وارث ضیاء کے وارث کو ووٹ دیگا“ جیسے جذباتی جملے لکھنے کی بجائے ہمیں صرف ان حقائق پر غور کر لینا چاہیے جو صرف ایک ڈیڑھ ہفتہ پرانے ہیں۔

میرے نزدیک اس سارے قضیے میں بلاول کو ناحق رگیدا جا رہا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے حالیہ فیصلے زرداری صاحب کے ہیں۔ آصف علی زرداری کو اک ایسا سیاسی سکالر بنا کر پورٹریٹ کیا گیا کہ جیسے ان سے سمجھدار سیاستدان اس روئے زمین پر کوئی نہیں۔ اک طرف موصوف اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے تھے دو ہزار چودہ والے دھرنوں میں بنا کسی منت کے نواز کا ساتھ دیا تا کہ ایمپائر سمیت کوئی اور ایڈونچر نہ کر سکے اب فرماتے ہیں کہ نواز شریف نے ان کو استعمال کیا۔

کیا کوئی بندہ اس مرد حر کے ان فیصلوں کی توجیح پیش کر سکتا ہے کہ انہوں نے بے منت نواز کا ساتھ کیوں دیا تھا؟ جب بھی ہیرو بننے کی باری آئی انہوں نے بغیر کسی لاجک کے ان پاپولر فیصلہ کیا۔ نواز شریف کرپٹ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں مگر ان کے احتساب کے طریقہ کار پر مجھے تحفظات ہیں ملک بھر کے اداروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر نا اہل ہوئے تو اقامہ پہ اور قید ہوئے تو ازمپشن پہ۔ سارے تفتیشی ادارے مل کر ان کی کرپشن کے خلاف ثبوت حاصل نہ کر سکے اور اسی چیز کا نواز شریف نے فائدہ اٹھایا۔ اگر ان کے کرپشن کے ثبوت نہیں ملے تو انہوں نے بھی تو اثاثوں کی تفصیلات منی ٹریل اور سورس آف انکم مہیا نہیں کیے۔

مکرر عرض ہے کہنواز شریف کرپٹ ہیں۔ پانامہ کے بعد اگر زرداری صاحب تحریک انصاف کے اصولی موقف کا ساتھ دیتے تو آج نواز شریف کرپشن کے اک کیس کو اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کی لڑائی ثابت نہ کر چکے ہوتے نہ ہی ان کے اس فیصلے کے سبب عدلیہ اتنی منہ زور ہو سکتی تھی۔ سیاست کے پروفیسر زرداری صاحب سے کوئی تو پوچھے کہ محترم اک ایسی جماعت جس نے آپ کی زوجہ مرحومہ آپ کی ساس مرحومہ کی کردار کشی سے لے کر آپ کو جیل میں ٹھونسنے تک کوئی اک بھی ایسا گھٹیا طریقہ نہ چھوڑا جس کی بنا پر آپ ن لیگ پر ترس دکھائیں، اسی نواز شریف نے آپ کے خلاف میمو گیٹ ایشو کو اچھالا یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کرایا آپ کا پیٹ چاک کرنے سے لے کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں ماری آپ پھر ان کے آگے سینہ سپر ہو کر ٹھہر جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے حالیہ فیصلوں کا طائرانہ سا جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ زرداری صاحب اک بار پھر خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کے اور ان کی بہن فریال تالپور کے نام کے ساتھ نیب ای سی ایل ریفرنسز کی بازگشت سنائی دی تھی۔ اب جناب اپنے بدترین مخالفین کے ساتھ الائنس بنا کر مضبوط اپوزیشن کی صورت میں ایسا پریشر گروپ تشکیل دینا چاہتے ہیں، جس کی بنا پر وہ اداروں کو حسب معمول دھمکا سکیں اور کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے اس الائنس کو استعمال میں لا کر حکومت اور حکومت سازوں بلیک میل کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).