ادریس بابر پر الزام تراشی – کیسے مظلوم ہیں، فرعون بنے بیٹھے ہیں



ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے، مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں، کہانی کے بعد کیا ہوا تھا

ادریس بابر ہمارے عہد کی نمایندہ آوازوں میں سے ایک ہے۔ جدید احوال کے اس شاعر میں وہ نیا پن اور لہجہ میں ایسی انفرادیت ہے جو حساس قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ادریس نے موجودہ زندگی کی گونا گوں کیفیات کو جدید فرد کی حیثیت سے دیکھا ہے اور اسے بیان کرتے ہوئے کوئی ڈنڈی نہیں ماری۔ اس کی شعری دنیا میں جا بجا وہ تمام حالات ملتے ہیں، جو آج ہم سب کو در پیش ہیں۔ اس کی شاعری دھارے سے کٹے فرد کا گرداب ہے۔ وہ بپھرے پانی میں ہاتھ پاوں مارتا ہے تا کہ ڈوبنے سے پہلے کنارے پر کھڑے، بے خبر انبوہ تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔

سماجی و سیاسی مسائل پر جس قدر اس نے لکھا ہے شاید ہی آج کل میں کسی اور نے اتنا لکھا ہو۔ وہ عالمی ادب کا عالم بھی ہے۔ اسی اعتماد نے اسے ”عشرہ“ جیسی صنف متعارف کرانے کا حوصلہ بخشا؛ جسے اب قبول عام حاصل ہو رہا ہے۔ عشرے کی ہیئت ہی ایسی ہے کہ موجودہ تناظر کا بیان مکمل تر صورت میں پیش کیا جاسکے۔

اس تحریر کا مقصد ادریس کی شاعری کا تفصیلی جائزہ نہیں۔ وہ ایک مستقل عنوان ہے۔ اس تحریر کا مدعا کچھ اور ہے۔

کچھ دنوں سے کالجوں کے بعض نوجوان شاعروں نے فیس بک پر انکشافات کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ چیٹ کے اسکرین شاٹس اور اکا دکا ہوئی کسی ملاقات کی روداد سناتے ہوئے، کہا جارہا ہے کہ ادریس بابر نے انھیں ہراساں کیا اور جنسی زیادتی کی کوشش کی۔ یکے بعد دیگرے ان نوجوانوں کی پوسٹس کے بعد کئی سینئر شعرا اور ادبی گروپس کے ایڈمن بھی میدان میں آ گئے اور ادریس بابر کے بائے کاٹ اور سبق سکھانے کی ایک تحریک شروع ہوگئی۔

منظم مہم چلائی گئی کہ کوئی ادارہ اور تنظیم ادریس کو مدعو نہ کرے۔ کئی جگہوں پر تو لوگوں نے اسے نشان عبرت بنانے، کھال کھینچ لینے، سرعام پھانسی دینے اور مشعال خان بنادینے کے اعلان بھی کیا۔ ایک بزرگ شاعر تو بضد تھے کہ ادریس ان کی ”وال“ پر آ کر جب تک اپنی بے گناہی کا حلف نہیں اٹھاتا، وہ مجرم ہے اور سزا کا مستحق۔ کئی حضرات نے ادریس کی شاعری اور ذاتی زندگی کی تحقیر کی۔ اسے معمولی سے بھی کم تر شاعر، ہم جنس پرست، دہریہ اور کمیونسٹ کے خطاب دیے گئے۔

ہرچند مبینہ طور پر متاثر نوجوانوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا، کہ ادریس نے ان کا ریپ کیا؛ لیکن فیس بک پر ایک پیج ‘ادریس بابر دی ریپسٹ’ کے نام سے بنایا جا چکا ہے۔ ادریس کو پہلے بھی مذہبی طلبا تنظیم کی طرف سے تشدد اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی نوکری بھی ختم کروائی گئی۔ ادریس ایک صحافی اور ناقد بھی ہے۔ کئی حلقے اس کے کاٹ دار تجزیوں سے خائف ہیں، تو کچھ حضرات اس کی شعری تاثیر سے نالاں۔

ہراسمنٹ پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ لیکن اس کا ثبوت، مقدمہ اور سزا عدالت میں کیے جانے والے کام ہیں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ سے زیادتی ہوئی آپ متعلقہ فورم پر مناسب کارروائی کیجیے۔ اس سے پہلے تک یہ سب یک طرفہ انکشافات ہیں۔ تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ اب اگر آپ کو فیس بک ہی پر اس کے بارے میں آگاہی دینے تک محدود رہنا ہے، تو یاد رہے آگاہی دیجیے؛ نفرت کی مہم کا حصہ مت بنیے۔

ادریس بابر کی سلامتی کو سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔ انھیں گالیوں اور دھمکیوں سے بھرے درجنوں پیغامات موصول ہو چکے ہیں۔ کئی سینیئرز تو چاہتے ہیں کہ فیس بک پر سماعت کے بعد ہی ادریس کو سزا سنادی جائے۔ اس رویہ پر افسوس نہ ہو تو کیا ہو۔ اور پھر یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ ہراسمنٹ کے الزام سے شروع ہوئی تحریک کو جوں جوں سینیئر حضرات کی حمایت ملتی گئی، اس کا رخ ہراسمنٹ کی بجائے ادریس کے شعری بائے کاٹ اور تشدد کی طرف مڑتا گیا۔ اس سے بھی سمجھ آتا ہے کہ الزام سے قطع نظر، ممکنہ مسئلہ کیا ہو سکتا ہے۔

ادریس بابر سمیت ہر شہری کی عزت نفس اور شہرت قیمتی ہے۔ محض الزامات پر بات کو بڑھا چڑھا کر نفرت انگیز اور تشدد کی طرف مائل تحریک چلانا قطعی درست نہیں۔ ادریس بابر کے بعض حامی بھی جوابی انکشافات کر رہے ہیں۔ مسئلہ ابھی قابل بحث ہے۔ یک طرفہ فتوے اور سزائیں فتور کے سوا کچھ نہیں۔ اس صورت میں ادریس کو ہوئے نقصان کا جواب دہ کون ہوگا؟

جس قسم کی مہم چلائی جارہی ہے اس سے ہراسمنٹ کا معاملہ بھی پس پردہ چلا گیا ہے۔ شاعروں کی گروہ بندیاں اور سیاست دیکھ کر مذہبی شدت پسندوں کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ گمان کی وادیوں میں بھٹکتے یہ حضرات آج کل پتھر چننے میں مصروف ہیں، تا کہ باقیوں کے سر کچلے اور جسم داغے جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).