چار اگست۔ یوم شہداء پولیس اور محکمہ کے وقار کی بحالی


اس وقت اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ شناخت کے بحران سے گزر رہا ہے تو وہ پنجاب پولیس ہے۔ حالیہ انتخابات میں جس طرح ملک بھر میں پولیس ملازمین کے تبادلے کیے گئے اور ایسی ایسی جگہوں پر تقرریاں کی گئیں جہاں کے معروضی حالات وواقعات سے پولیس افسران نا واقف تھے۔

خاندان اور دوستوں سے تو پولیس ملازمین پہلے ہی دور ہوتے ہیں گھر والوں سے دوری کے دوران جس طرح شدید نفسیاتی کرب کا شکار ہوتے ہیں اس تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پولیس میں آنے کے بعد رشتے داریاں ختم ہو جاتی ہیں اور ذمہ داریاں شروع ہو جاتی ہیں۔

انتہائی نا مساعد حالات کے با وجود پولیس اہلکاروں نے اپنے فرائض دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ملکر محنت، ایمانداری اور جانفشانی سے ادا کیے۔ پنجاب پولیس سیاسی اثر و رسوخ، فنڈز کی عدم دستیابی، وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود بہترین انداز سے بروئے کار آئی۔

پولیس میں ایسے قابل اور محنتی افسران اور جوانوں کی کمی نہیں جنہوں نے جرائم کی بیخ کنی اور فرائض کی بجا آوری میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ اسوقت ڈیوٹی اوقات کے متعین نہ ہونے، تنخواہوں میں کمی، سیاسی اثرورسوخ اور ذرائع ابلاغ میں منظم طریقے سے بطور ادارہ جس طرح کردارکشی کی جا رہی اس سے پولیس ملازمین کا مورال گر رہا ہے۔

زندہ قومیں اپنے بہادر سپوتوں کے کارنامے یاد رکھتی ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ 4 اگست کا دن پولیس کے ایسے ہی جانباز افسران اور جوانوں کی لازوال قربانیوں کی یاد میں یوم شہداء کے طور پر منایا جا رہا ہے جنہوں نے عوام کے جان ومال کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اب جبکہ عمران خان صاحب خیبر پختونخواہ پولیس ماڈل سامنے رکھ کر لوگوں میں ستائش اور مقبولیت حاصل کر چکے ہیں پنجاب پولیس کی جائز تجاویز کی شنوائی کریں۔ اس دن کی مناسبت سے پولیس کے حوصلے بلند کریں اور تبدیلی کی جو لہر چل پڑی ہے پنجاب پولیس میں بھی متعارف کروائیں۔ کیونکہ شہداء کی یادگاریں تعمیر کرنے، شمعیں روشن کرنے اور سیمینار منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ کا وقار بحال کرنا انتہائی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).