’صرف ایک کوہلی کافی نہیں ہے‘


وراٹ کوہلی کی عظمت میں دو رائے نہیں۔ وہ ماڈرن کرکٹ کے چنیدہ بیٹسمین ہیں۔ ابھی ان کا آدھا کرئیر باقی ہے کہ وہ بے شمار بیٹنگ ریکارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔ یہی نہیں وہ ہر نئے دن مزید بہتری کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔

مگر ان تمام مسلمہ حقائق کے باوجود ایک کڑوا کسیلا نکتہ ہمیشہ کوہلی کے ناقدین کے یہاں زیربحث رہتا ہے کہ ان کی تمام تر مہارت اور عظمت دوستانہ کنڈیشنز کی مرہون منت ہے۔ گذشتہ دورۂ انڈیا پہ جیمز اینڈرسن نے بھی یہی پھبتی کسی تھی۔

اس بار جب انڈیا انگلینڈ کے دورے پہ نکلا تو بہت سی آنکھیں منتظر تھیں کہ اب کوہلی اینڈرسن کی پھبتی کا کیا جواب لائیں گے۔ اس سے پہلے کوہلی بھی یہ کہہ چکے تھے کہ وہ انگلش کاونٹی سیزن ضرور کھیلیں گے تا کہ کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہو پائیں مگر مصروف شیڈول کی وجہ سے وہ کاونٹی نہ کھیل پائے۔

یہ بھی پڑھیے

کوہلی کی سینچری کام نہ آئی، انڈیا کو انگلینڈ نے ہرا دیا

ایسے میں معاملہ مزید دلچسپ تھا کہ اب جب کہ کوئی خاص تیاری بھی نہ ہو پائی کوہلی اینڈرسن کو کیا جواب دیں گے۔ انگلش کنڈیشنز میں ڈیوک بال اور اینڈرسن ایسے سیمنگ بولرز کا سامنا ہی وہ عوامل ہیں کہ تمام تر عظمت اور رینکنگ کی بلندیوں کے باوجود کوہلی کی انگلینڈ میں بیٹنگ اوسط ناگفتہ بہ رہی ہے۔

وراٹ کوہلی

جب کوہلی گلوز پہن کر گراونڈ میں اترے تو انڈین اننگز مشکلات کا شکار تھی۔ کوہلی نے دھیرے دھیرے اپنے اوسان اور اننگز دونوں کو بحال کیا۔ پہلی اننگز میں کوہلی نے 277 منٹ کریز پہ گزارے۔ خود کو کنڈیشنز کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا۔ کھیل پر حاوی ہونے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ خود کو گیم سے پیچھے رکھ کر کھیلنے کی کوشش کی۔

اور یوں قطرہ قطرہ کر کے وہ اننگز ترتیب پائی جسے کوہلی نے اپنی زندگی کی بہترین اننگز قرار دیا لیکن کوہلی کی ایسی یادگار اننگز اور انگلینڈ کی ناقص فیلڈنگ کے باوجود انڈیا پہلی اننگز میں کوئی برتری حاصل نہ کر پایا۔

دوسری اننگز میں بھی انڈین اٹیک نے زبردست پرفارمنس دی۔ ایشانت شرما نے کچھ پرانی یادیں بھی تازہ کیں اور انڈین بیٹنگ کے لیے کافی آسانی پیدا کر دی۔

توقع یہی تھی کہ کوہلی کی فارم کے آگے یہ ہدف بازیچۂ اطفال سا ثابت ہو گا کیونکہ جس ذہنی ارتکاز کا مظاہرہ انھوں نے پہلی اننگز میں کیا تھا گمان بھی نہ تھا کہ وہ جیتے بغیر وکٹ سے لوٹیں گے۔

کوہلی لوٹنا بھی نہیں چاہتے تھے، 185 منٹ تک وہ کریز پہ ڈٹے رہے۔ پہلی اننگز میں بھی ان کے اردگرد وکٹیں گرتی رہی تھیں مگر انھوں نے ’ٹیل اینڈرز‘ کے ساتھ مل کر ہی 100 سے زائد رنز بٹور لیے تھے۔ تو آج بھی تو کچھ ایسا ہو ہی سکتا تھا۔

مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ گو کوہلی نے کوئی غلطی نہیں کی، دباؤ کے باوجود اعصاب مجتمع رکھے۔ گیند چھوڑنے کے معاملے میں نہایت شاندار قوت فیصلہ کا مظاہرہ کیا لیکن اگر اس ساری صورت حال میں کوئی گیند اچانک اندر آ جائے تو انسانی ریفلیکسز تھوڑا سا دھوکہ کھا ہی جاتے ہیں۔

کرکٹ

بین سٹوکس نے نہ صرف کوہلی کے ریفلیکسز کو دھوکہ دیا بلکہ باقی ماندہ قلیل ہدف کے پیچھے پھرتی انڈین بیٹنگ کو بھی لمحوں میں ہی لپیٹ دیا۔ برمنگھم میں یکبارگی ایسا محسوس ہوا کہ انڈیا نہیں بلکہ کوہلی ہار گیا۔ کیونکہ پہلی اننگز سے ہی یہ کوہلی اور انگلینڈ کا مقابلہ تھا۔ باقی انڈین بیٹنگ اس مقابلے سے گریزاں سی ہی دکھائی دی۔

یہ دورہ خاصا طویل ہے۔ انڈین بیٹنگ کے مزید امتحاں ابھی باقی ہیں۔ عموما ایسے طویل دوروں میں اعصاب ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بکھر جاتا ہے۔ اگر انڈیا کو اس شکست و ریخت سے بچنا ہے تو یہ ذہن نشین کرنا ہو گا کہ اس انگلش اٹیک کا توڑ کرنے کو صرف ایک کوہلی کافی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp