عمران خان سیاسی دور اندیشی کا مظاہرہ کریں


ملک کی اپوزیشن نے مل کر کام کرنے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم اور اسپیکر کے عہدے کے لئے متفقہ امیدوار لانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو حالیہ انتخابات میں قومی سطح پر اگرچہ سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہؤا ہے لیکن اسے ابھی تک قومی اسمبلی میں واضح اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان شاید ملک کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے جنہیں قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے 172 ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر 168سے 170 ارکان کی حمایت حاصل کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیک وقت کئی نشستوں پر ایک ہی امید وار کے کامیاب ہونے کی وجہ سے بھی تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں واضح اکثریت حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے تحریک انصاف کے ترجمانوں کی طرف سے منتخب ارکان میں سے اکثریت کا عدد تلاش کرکے آئینی ضرورت پوری کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس مؤقف سے اختلاف رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف کے علاوہ سب قابل ذکر جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کی شکایت بھی کی ہے ۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں چھ نشستیں حاصل کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اگرچہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن وہ بھی انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کرتی ہے۔

دھاندلی کے حوالے سے سب سے مضبوط دلیل انتخابی نتائج میں تعطل اور ان کے اعلان میں تاخیر کے علاوہ پولنگ اسٹیشنوں پر نوٹ کی گئی بے قاعدگیوں کے حوالے سے ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ذرائع کے ان دعوؤں کو بنیاد بنایا جارہا ہے کہ نتائج کا پہلے سے فیصلہ ہو گیا تھا اور یہ بات طے کرلی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کو برسر اقتدار لایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ الزامات عائد کرتے ہوئے کوئی ایسا ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکتا جس کی بنیاد پر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکے۔ گو کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پری پول رگنگ کی شکایات سامنے آتی رہی تھیں اور پارٹی نواز شریف کو ملنے والی سزا کو بھی انتخابی دھاندلی کا ہی حصہ سمجھتی ہے ۔ اسی لئے متعدد الیکٹ ایبلز مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ انتخابات سے ہفتہ عشرہ قبل پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ (ن) کی طرح قبل از انتخاب دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا تھا۔ اس طرح یہ دونوں پارٹیاں قبل از انتخاب ہی ممکنہ انتخابی نتائج کی تیاری کررہی تھیں ۔ دوران انتخاب الیکشن کمیشن کے نتائج جمع کرنے کے سسٹم کی ناکامی اور فارم 45 کے حصول کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایات کو عذر بنا کر یہ مقدمہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں دھاندلی اور درپردہ سازش کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔ دوسری چھوٹی پارٹیاں بھی اس احتجاج میں شامل ہو چکی ہیں جن میں متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی سر فہرست ہیں۔ خاص طور سے ایم ایم اے کی غیر متوقع ناکامی اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے علاوہ نائب صدر سراج الحق کی انتخابی شکست کی وجہ سے جمیعت علمائے اسلام کے علاوہ جماعت اسلامی بھی چیں بجبیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان گزشتہ دس برس کے دوران پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ رہنے کے بعد اب یک بیک قومی اسمبلی سے باہر ہوکر سیخ پا ہیں۔ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوجاتے اور انہیں مستقبل کے سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ ڈالنے اور اپنی سیاسی مہارت دکھانے کا موقع مل جاتا تو شاید ان کا دکھ اس قدر شدید نہ ہوتا۔ اس کے باوجود یہ امر خوش آئیند ہے کہ ایم ایم اے اور مولانا فضل الرحمان کے اکسانے کے باوجود دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جمہوری عمل میں حصہ لینے، نو منتخب اسمبلی کا حلف اٹھانے اور اب وزیر اعظم کے علاوہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعدد اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹی کانفرنس کے اس اعلان کے بعد کہ وہ وزیر اعظم اور اسپیکر کے لئے امید وار سامنے لائیں گی، تحریک انصاف کے حامیوں کی طرف سے واویلا سننے میں آیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ان کے ماضی کے کردار کا آئینہ دکھاتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ صرف مفاد کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے پر آمادہ ہوئی ہیں۔ اگر اس الزام کو درست مان لیا جائے تو اس ’غلطی‘ کا ارتکاب تحریک انصاف کے چئیرمین اور ممکنہ وزیر اعظم عمران خان نے اس اعلان کے ذریعے کیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) سے کسی قسم کا اشتراک نہیں کریں گے۔ اس مؤقف کے لئے انہوں نے شریف خاندان اور آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کو بنیاد بنایا تھا۔ حالانکہ انتخاب سے پہلے آصف زرداری نے تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کے دروازے کھلے رکھے تھے۔ تحریک انصاف اگر حکومت سازی کے لئے پیپلز پارٹی سے اشتراک کرلیتی تو اسے نمبر گیم میں اس قدر مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ عمران خان کی طرف سے بد عنوانی کی بنا پر کسی سیاسی جماعت سے تعاون نہ کرنے کی دلیل کمزور اور ناقابل قبول ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے متعدد لوگ انتخابات سے کچھ عرصہ قبل تک تحریک انصاف میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ آزاد منتخب ہونے والے جن ارکان کی قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں حمایت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے، ان میں سے بیشتر نے انہی دو جماعتوں کے ساتھ ماضی کا کافی وقت بتایا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ برس کے دوران الیکٹ ایبلز کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے جس کرشمہ کا عمران خان پر انکشاف ہؤا ہے، ان میں بھی اکثر کسی نہ کسی طرح سے سابقہ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ان الزامات کی زد پر بھی رہے ہیں جنہیں مقبول نعرہ بنا کر عمران خان تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بنوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس لئے اب مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں حکومتوں کا حصہ بنتے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بدعنوانی کو سلوگن سے زیادہ سیاسی حقیقت کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ اگر گجرات کے چوہدری اور جنوبی پنجاب کے سردار نئی سیاسی صورت حال میں شفاف اور قابل قبول ہو سکتے ہیں تو ملک کے دوسرے بڑے صوبے کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے بارے میں بدعنوانی کا نعرہ بلند کرکے اس کی سیاسی حیثیت کو نظر اندز نہیں کیا جاسکتا۔

یوں بھی عمران خان کے اصل حریف شریف برادران ہیں۔ پنجاب میں ان کی سرکردگی میں کام کرنے والی مسلم لیگ (ن) بڑی سیاسی حقیقت کے طور پر موجود ہے اور نواز شریف کی قید کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے خطرہ بنی رہے گی۔ عمران خان پیپلز پارٹی کی طرف تعا ون کا ہاتھ بڑھا کر مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر تنہا کرسکتے تھے لیکن انتخاب سے پہلے ہی ان دونوں پارٹیوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے اور ان کے خلاف سیاسی محاذ آرائی کا اعلان کرکے عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اپنے لئے سنگین سیاسی مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ بہت ہی کم اکثریت یا واضح عددی اکثریت کے بغیر عمران خان وزیر اعظم بنتے ہیں تو سرکاری بنچوں کے مساوی طاقت رکھنے والی اپوزیشن ان کی حکومت کا جینا حرام کر رکھے گی۔ اس صورت میں آزاد ارکان کے علاوہ ایک، دو یاتین چار نشستوں والی پارٹیاں حکومت کے ساتھ تعاون کی علیحدہ قیمت مانگتی رہیں گی۔ اس طرح عمران خان بطور وزیر اعظم ملک کو درپیش مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے اپنی حکومت کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے ۔ یہ صورت حال کسی طور قابل تحسین نہیں ہے۔ اسی لئے تجربہ کار سیاست دان ، عمران خان کے معتمد خاص اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جلد ہی مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک قائم ہوجائے گا جو پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حمایت کرے گا اس طرح اس کی حکومتیں مستحکم ہو جائیں گی۔

شیخ رشید جس امکان کا اظہار کررہے ہیں ، وہ تحریک انصاف کے کنگز پارٹی کی شہرت سامنے آتے ہی نوشتہ دیوار کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ فی الوقت ناقدین تحریک انصاف کی کامیابی میں خلائی مخلوق کا ذکر کرکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر عملی طور سے مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ تاثر قوی ہوجائے گا کہ ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ ہی عمران خان کو اقتدار میں لانا چاہتی تھی۔ اس طرح ان پونے دو کروڑ ووٹروں کا ایثار اور حمایت رائیگاں جائے گی جنہوں نے سیاست میں تبدیلی کے لئے عمران خان اور ان کی پارٹی کو ان کے تمام تر یو ٹرن کے باوجود ووٹ دئیے تھے۔ اور تبدیلی کی توقع میں وہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا انتظار کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس پارٹی کو انتشار کا شکار کرنے کی کوئی کوشش نواز شریف کی سیاسی قوت تو کم نہیں کرے گی لیکن عمران خان کو مقتدر حلقوں کا چہیتا ثابت کرکے ، ان کی اتھارٹی اور مقبولیت پر مستقل داغ بن جائے گی۔

اس وقت بیشتر مبصرین اور تجزیہ نگار عمران خان کو موقع دینے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف کی صورت میں ایک نئی سیاسی طاقت کا خیر مقدم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اسی لئے مصالحت اور درگزر کی باتیں بھی کی جارہی ہیں اور احتساب کو سیاسی کی بجائے قانونی معاملہ سمجھنے اور اس سے اسی طرح نمٹنے کی تجویز بھی سامنے آرہی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن پر بھی اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی حکومت سازی کے جھمیلے سے نکلتے ہی اس طرف فوری توجہ دینا ہوگی۔ ملک میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر شدید تقسیم سامنے آئی ہے ۔ یہ تقسیم اختلاف سے بڑھ کر نفرت اور بد ظنی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ کسی بھی کامیاب حکومت کے لئے یہ صورت حال اضافی مشکلات کا پیش خیمہ ہوگی۔

 تحریک انصاف کو سیاسی خلیج پاٹنے کے لئے کارکردگی کے علاوہ مصالحت اور سیاسی مخالفین کے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کے محاذ پر سرگرم عمل تحریک انصاف کے حامیوں کی شدت مزاجی پر قابو پانے کے علاوہ سیاسی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے اسمبلیوں میں وسیع تر تعاون کی صحت مند روایت کو پروان چڑھانا ضروری ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali