چندہ تمہارا بھتہ ہمارا اور کھالیں آدھی آدھی


پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے ممکنہ اتحاد کو سندھ سمیت پورے ملک میں حیرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ کل تک جن کو آپا زہرہ کا قاتل، دہشتگرد بھتہ خور اور مافیا سمجھا جاتا تھا آج ان کو گلے لگایا جا رہا ہے۔ اگر کراچی کی عوام نے ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو مسترد کر کے پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تاکہ وہ کراچی کے بھاری مینڈیٹ کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والی جماعتوں سے انہیں نجات دلا سکے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کراچی کے عوام کو یہ کیسا نیا پاکستان دے رہی ہے جس میں انہی جماعتوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے جن پر لسانیت کے نام پر انتہاپنسدی پھیلانے سے لے کر چانئہ کٹنگ، بھتہ خوری، نیٹو کرنٹینرز کی چوری اور قتل و غارت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ کیا ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کے ایم کیو ایم کے حوالے سے تمام اعلانات، بیانات، سب جھوٹ تھا یا پھر اقتدار کے حصول کے لیے پاکستان تحریک انصاف یہ زہر کا پیالہ پینے پر مجبور ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف ایم کیو ایم عام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگا کر کہہ رہی ہے کہ فرشتوں نے پاکستان تحریک انصاف کو کراچی سے جتوایا ہے اور دوسری طرف وہ انہی کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور نظر آ رہے ہیں۔ یاد رہے یہ وہ مہاجر قومی موومینٹ سے لے کر متحدہ قومی موومینٹ کے سفر میں اس جماعت کے کئی گروہ بنے اور آگ اور خون کے دریا عبور کر کے اقتدار تک پہنچے۔ جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف جیسے کئی فرشتوں اور کئی جمہوریت کے چیمپیئنوں نے اس جماعت کو طاقت بخشی اور آہستہ آہستہ یہ جماعت کراچی کا ڈان بنتے ہوئے پورے ملک میں اپنا اثر و رسوخ دکھانے لگی۔ کراچی کی ہوم منسٹری سے لے کر وفاق کی ہاؤسنگ اور پورٹ اور شپینگ سے یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ اپنے بنانے والے آقاؤں کو بھی آنکھیں دکھانے لگی۔

پھر ایک دن انکل ڈارون کی نظریے سروائیول فار فٹسٹ کے تحت ایم کیو ایم کو اپنے قائد الطاف حسین سے اپنے راستے الگ کرنا پڑے اور پھر دبئی سے ڈرائی کلین مشین لے کر کراچی کے بیٹے مصطفیٰ کمال کراچی میں نمودار ہوئے اور ایم کیو ایم کے کئی پارلیمینٹیرین اس یقین کے ساتھ پاک سززمین میں شامل ہوئے کہ اب کراچی میں الطاف نہیں بلکہ غلام مصطفیٰ عرف مصطفیٰ کمال کا سکہ چلے گا مگر یہ ہو نہ سکا اب وہے مصطفیٰ کمال ڈرائی کلین مشین کو چھوڑ کر پھر سے دبئی جانے کی تیاری میں ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ سارے ایم کیو ایم کراچی کے ندی نالے دوبارہ الطاف بھائی کے دریا میں ہی گریں گے۔

صوبہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے کئی بار سندھ کے سپوت الطاف حسین کو لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے لے کر ٹینک چوک لاڑکانہ میں کلاشنکوف سے سلامی دے کر ان کو لٹل فیدل کاسترو بنانے کی ناکام کوششیں کیں مگر یہ اتحاد کامیاب نہ ہو سکا اور پھر دوبارہ ان حالیہ انتخابات میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں کراچی کے مینڈیٹ رکھنے والے، پاکستان تحریک انصاف اور قوم پرستوں کے مابین الیکشن اتحاد ہوا مگر اس اتحاد کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی کئی وجوہات تھیں ان میں ایک وجہ ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کا سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے اتحاد تھا جس کو سندھ کی عوام نے رد کیا۔

اب جب پاکستان تحریک انصاف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسی ایم کیو ایم پاکستان سے بغل گیر ہو رہی ہے جس پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب سمیت کئی رہنماؤں نے کئی گھناؤنے الزامات لگائے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف ماضی کی تلخ تاریخ سے سیکھنے کے بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح حکومت سازی پر زور دی رہے ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہی ایم کیو ایم ماضی کی طرف انکار اور اعتبار کے نعرے بلند کر کے پریس کانفرنسز کرتی نظر آئے گی کہ عمران بھائی نے وعدے وفا نہ کیے اس لیے اب ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کو ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اتحاد کی بہت بھاری قیمت ادا کرنے پڑے گی کراچی سے لے کر موہن جو داڑو تک پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب اپنی مقبولیت کھو چکے ہوں گے اور لوگ اس نا پائیدار اتحاد کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ چندہ تمہارا، بھتہ ہمارا اور کھالیں آدھی آدھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).