’دوستی‘ جس نے مندر اور مسجد کے طرز تعمیر کا فرق مٹا دیا


تمل ناڈو کی جامع مسجد

مسجد کا اندرونی حصہ جس کے ستونوں پر پھول کندہ کیے گئے ہیں

‘ہم مندر کے معماروں ہی سے مسجد کے ستون تیار کرواتے ہیں۔

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ایک جامع مسجد کے قاضی ایم ایم قادر بخش حسین صدیقی کا کہنا ہے کہ مذہبی تفریق عبادت گاہوں تک نہیں آتی ہے۔

تمل ناڈو کے رامیشورم میں معروف مندر ہندوؤں کی اہم زیارت گاہ ہے اور اس کا فن تعمیر کئی لحاظ سے منفرد ہے۔

ریاست کے رام ناد ضلعے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں مندروں اور مسجدوں کا فن تعمیر تقریباً یکساں ہے۔ یہاں نقاشی والے بڑے بڑے پتھروں کے ستونوں پر پھول بوٹے کندہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’آپ اپنی مسجد کا نام امن مسجد رکھیں‘

مسجد کی تعمیر میں سکھ اور ہندو مددگار

انڈیا کے اس علاقے میں مذہبی رواداری اور خیرسگالی کی بنیاد 17 ویں صدی میں رام ناد کے ہندو بادشاہ كجھاون سیتوپتی اور مسلم سماجی کارکن اور تاجر ولّال سيتاكتی کی دوستی نے رکھی تھی۔

مسجد

350 سال قبل کیلاکرائی کے مقام پر سیتاکتی نے جامع مسجد تعمیر کروائی جہاں پتھروں کے ستونوں پر پھولوں کی نقاشی ہے۔ رامیشورم کے مشہور رام مندر میں بھی ستونوں پر ایسی ہی نقاشی ہے۔

ایسی ہی نقاشی اور فن تعمیر بادشاہ سیتوپتی کے محل ‘رامالنگا ولاسم’ میں بھی نظر آتی ہے اور اس کی تعمیر میں راجہ کے مسلم دوست سيتاكتی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

سرکاری میوزیم کے ریکارڈز میں محل کی تعمیر میں سیتاکتی کے کردار کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ راجہ نے اپنی مملکت میں مسجدیں بنوانے کے لیے زمینیں عطیہ کی تھیں۔

ڈاکٹر برنارڈ ڈی سامی

ڈاکٹر برنارڈ ڈی سامی کا کہنا ہے کہ یہاں کا طرز تعمیر ڈروڑ طرز تعمیر پر مبنی ہے

رام ناد کی بہت سی تاریخی عمارتوں پر دڑوڑ فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر برنارڈ ڈی سامی کہتے ہیں: ‘دڑوڑ فن تعمیر کی بنیادی خصوصیات ستونوں والے ہال ہیں۔ پتھروں کے ان ستونوں پر کئی طرح کی پھولوں کی نقاشی کی گئی ہے۔ فن تعمیر کا یہی طرز دوسری عمارتوں میں بھی نظر آتا ہے خواہ وہ محل ہو، یا مسجد یا پھر مندر۔’

یہ بھی پڑھیے

نہنگ سکھوں کے زیرِ حفاظت ’گرو کی مسجد‘

مودی شنزو آبے کو مسجد کیوں لے کر گئے؟

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں کس طرح فن اور ثقافت کو مذہب پر فوقیت حاصل تھی۔’

ڈاکٹر سامی نے وضاحت کی ہے کہ شمالی ہند میں مسلمانوں کے حملے کے بعد اسلام پھیلا جبکہ جنوب میں یہ تجارت کے ذریعے آیا۔

سنگ تراشی

ستون پر بنے پھول سنگ تراشی کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں

وہ کہتے ہیں: ‘ہندو بادشاہوں اور تاجروں کے مسلم تاجروں سے اچھے تعلقات تھے۔ سب سے اہم بات کہ جن لوگوں نے اسلام کو اپنایا وہ تمل زبان بولتے تھے، عربی یا اردو نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں رہنے کا موقع ملا۔’

اتراكوس منگئی مندر کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سامی کہتے ہیں کہ ‘بادشاہ سیتوپتی نے مسلمانوں کو اپنی ریاست کا سرپرست اور محافظ قرار دیا۔ راجہ اور تاجر کے درمیان کی دوستی عوام اور سماج کے مختلف طبقوں تک پہنچی۔ اور دونوں مذاہب کی عبادت گاہ بظاہر ایک ہی نظر آتی تھی اور یہ ڈروڑ فن تعمیر پر مبنی تھے۔’

مسجد

مقامی لوگوں کے مطابق راجہ سیتوپتی تاجر سیتاکتی کی دوستی نے مذہبی اختلافات کو دور کر کے آنے والی نسلوں کو تمل شناخت کو ترجیح دینے کی بنا ڈالی۔

بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے جامع مسجد کے قاضی ایم ایم ایم قادر بخش حسین صدیقی نے کہا: حال ہی میں كلاكرائی کے ایک مسلمان نے رام ناد میں ایک کھیل کا میدان تعمیر کرایا جس کا نام انھوں نے سیتاکتی اور سیتوپتی میدان رکھا۔

جامع مسجد کے قاضی ایم ایم ایم قادر بخش حسین صدیقی

جامع مسجد کے قاضی ایم ایم ایم قادر بخش حسین صدیقی

راجہ سیتوپتی کی نسل سے ایک کمارن سیتوپتی نے بھی قادر بخش کی بات دہرائی۔

انھوں نے کہا: ‘مسلمان ہمیں اپنے گھر کی شادیوں اور دوسرے خاندانی تہواروں میں بلاتے ہیں۔ ہم خاندانی دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ آپ کو یہاں مسلمانوں کی دکانوں میں کام کرتے ہندو اور ہندوؤں کی دکانوں میں کام کرتے مسلمان خوب ملیں گے۔ ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp