پچھتاوے، احساس زیاں اور کفارے


1856ء میں چیک ری پبلک میں پیدا ہونیوالے سگمنڈ فرائیڈ نے دنیا کو انسانی نفسیات کے حوالے سے بعض ایسی اختراعات سے متعارف کرایا، جو آج تک حل طلبی کے جست جو کنندگان پر مزید تحقیق کے نئے در وا کرتی ہیں۔ ٹوٹم اینڈ ٹیبو تھیوری سگمنڈ فرائیڈ کے ان شہرہ آفاق خیالات کی ترجمانی ہے، جو نہ ماننے والوں کو بھی تا حال رام کیے ہوئے ہیں۔ ٹوٹم اینڈ ٹیبو کی تفصیل میں جانا انتہائی عمیق موضوع ہے اور شاید مجھ ایسے طالب علم کے لیے زیادہ موزوں نہیں لیکن اس خیال کا ایک نکتہ میرے موضوع سے انتہائی مطابقت رکھتا ہے اس لیے اس کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

انسان اپنی جبلت، فطری خواہش رقابت یا جذبات میں بہہ کرجب اپنی قیمتی متاع اپنے ہی ہاتھوں گنوا بیٹھتا ہے، تو پھر اسے اندر کی خلش کفارہ ادا کرنے پر مجبورکرتی رہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ خود پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات بنیادی طور پر اسی نکتے کو مذہب کا آغاز کہتے ہیں۔

کوئی بھی انسان جب ایسی صورت احوال سے دو چار ہوتا ہے، تو مرحلہ وار اندر کی خلش، پچھتاوے، احساس زیاں اور کفارہ یا خمیازہ ادا کرنے کی کیفیات سے گزرتا ہے۔ مجھے بھی متعدد بار ایسی کیفیات سے دو چار ہونا پڑا۔ مثلاً آغاز جوانی میں نظام حکومت، جمہوریت اور سیاست سے نابلد طالب علم کے طور پر میں نے ضیا الحق کی رجیم میں اسے مرد مومن اور مرد حق سمجھا، لیکن بعد ازاں ذہنی شعور کی سطح بدلی تو گماں ہوا کہ جیسے
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
کے ذریعے اسی رجیم کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے /

پھر جوانی کی حدود میں قدم رکھا ہی تھا کہ ہرمسلمان بالخصوص ہر پاکستانی پر جہاد کشمیر فرض ہونے کے فتوے کانوں میں پڑے اور ہم سمجھی نا سمجھی کے بیچوں بیچ کھڑے اس پربھی صدق دل سے ایمان لے آئے۔
اس وقت کی شعوری سطح کے لحاظ سے اس راہ حق پراپنی جان نچھاورکرنے کی تمنا لیے، ہم گھر سے نکل بھی پڑے، لیکن ہماری بد بختی کہ اس سعادت سے محروم رہے۔ کچھ ساتھی البتہ اس خوش نصیبی کو پا کر بھی آج تک اپنی بد نصیبی کا رونا روتے ہمارے لیے مثال ہیں۔

عراق نے کویت پرحملہ کیا تو امریکا کو تن تنہا للکارنے والا مرد مومن، مرد حق صدام حسین ہما را ہیرو ٹھہرایا گیا۔ کیا مسجد، منبر، محراب، مدرسہ، اسکول، کالج سمیت ہرصاحب الرائے نے یہی رائے دی کہ صدام حق پر ہے۔ کسی نے یہ جاننے کا تکلف بھی نہ کیا کہ ریاست کس طرف ہے؟ میرے سامنے کی بات ہے درجنوں نومولودوں کے نام صدام کے نام پر رکھے گئے۔ کبھی وہ مرد مجاہد ٹھہرایا گیا اور کبھی امت کا امام، لیکن جیسے ہی امریکیوں نے اسے سرعام تختہ دار پر چڑھایا، سارے نعرے بازکہیں کھو گئے۔ کئی ایک نے بچوں کے نام بدل ڈالے اورجنہوں نے نہیں بدلے آج تک اس وقت کو کوستے ہیں جب یہ نام رکھا تھا۔ میں نے پچھتاوے اوراپنے کیے پر پشیمان ہونے کی یہ کیفیت گزشتہ سال دورہ کویت کے دوران صحیح معنوں میں محسوس کی۔

پھرملا عمر مرد حق بنا اور ساری قوم اس کی تصویریں دل و دیوار پر سجائے اس کے ہم رکاب ہولی۔ خلافت کی بحالی کی باتیں ہونے لگیں۔ القاعدہ سے متعلق ہماری قوم کی اکثریت کے زریں خیالات آج بھی مجھے یاد ہیں۔ نوجوان نسل کی ذہنی آب یاری کے ذمہ دار ہی نوجوان نسل کو القاعدہ کے عظیم المرتبت نظریے میں جھونکنے میں لگے ہوئے تھے۔

مجھ سمیت کچھ لوگ جو جہاد کشمیر سے بال بال بچ جانے کے باعث جہاد پر بھیجنے والوں کے دن بہ دن پھیلتے گھر، شان و شوکت اور بڑھتے مرتبوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرچکے تھے ؛ اس باراس دام میں آنے کو تیارنہ تھے، لیکن آج بھی اکثریت ذاتی مفاد پرستوں کا ایندھن بن کر ان کو کندن بنانے کے لیے آمادہ تھی۔ پہلی باردل اکثریتی رائے کے مخالف بہاؤ پرمائل ہوا۔ اس سوچ کے خلاف مزاحمتی روش اپنائی، لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا؛ قوم کے کئی سپوت اس راہ کے راہی بنے اور راہ عدم سدھارے۔ میں اس وقت کچھ نہ کرنے کا پچھتاوا آج بھی دل میں لیے ہوئے ہوں۔

تحریک طالبان ظہور پذیر ہوئی، مجاہدین کے روپ میں افغانستان جانے والوں میں میرے ہی ہم وطن تھے، جو میرے ہم قدم تعلیم کی راہ پر چلتے چلتے راہ بدل گئے تھے ؛ انہیں یہ راہ سجھانے والے کوئی اور نہیں ہمارے وہی رہنما تھے، جنہیں ہم مثل خضر سمجھتے تھے۔ نائن الیون میں تین ہزار امریکیوں کے خون کا بدلہ پاکستان اورافغانستان کے تین لاکھ سے زائد شہریوں نے اپنا خون دے کر چکایا، توسمجھ آیا کہ یہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا!

نہیں معلوم کہ خلافت کی بحالی کے داعی جو ضیا الحق اورصدام کو اپنا مصلح اورراہ برسمجھتے تھے، آج دولت اسلامیہ عراق و شام یعنی داعش پرکیا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی اس خواہش اور تبلیغ سے جو تین نسلیں برباد ہوئی ہیں، اس کا حساب کون دے گا اور کون لے گا؟
کیا پچھتاوے، احساس زیاں اورکفارے کی جو کیفیت میں محسوس کرتا ہوں، کسی اور فرد کے اندر بھی سر اٹھاتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).