بھکاریوں کی پیدایش کے مراکز


بے روزگاری، مہنگائی اور دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ ہر سڑک پہ، ہر چوک میں بیٹھا ہوا ایک بھکاری ہے۔ وہ بھکاری عام طور پر صبح سویرے چوک میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور رات گئے واپس جاتا ہے۔ لوگ اس سے ہم دردی سے پیش آتے ہیں اور اسے بھیک دیتے ہیں، ہر طریقے سے اس کی مدد کرتے ہیں اور آخر میں اسی شخص کو پیشہ ور بھکاری کہہ کر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹے بچے بھی سڑکوں پر مانگ رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ تعلیم حاصل کیوں نہیں کرتے؟ ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ وہ پڑھنا نہیں چاہتے، مگر اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ بھکاری بننا چاہتے ہیں؟ تو ان کے چہرے پر اداسی اور بے بسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

بعض اوقات یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ شاید وہ اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر مانگ رہے ہیں۔ جہاں مجبوری کا سوال ہے تو اس بات سے حیرانی ہوتی ہے کہ کیا ہر چوک پر ہی 10 لوگ مجبور ہو جاتے ہیں اور مانگ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
سوال ہے کہ بھکاری پیدا کیسے ہوتے ہیں؟
یقیناً کچھ لوگ یہ کہے گئے کہ پیدا ہوتے ہی کوئی بھکاری نہیں ہوتا تو جناب موجودہ دور میں پیدا ہوتے ہی کچھ بچے بھکاری ہوتے ہیں؟
کیسے؟

چھہ سات سال کا بچہ جو آپ سے مانگ رہا ہے وہ بھکاری ہے اور اس کو بھکاری بنانے والے اس کے والدین ہیں کیوں کہ وہ خود جانتے تھے کہ روزگار سے زیادہ پیسے مانگ کر کمائے جاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ میرے جیسے لوگ خدا ترسی کر کے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی مدد کرنا چھوڑ دیں تو یقیناً مجبور ہو کر یہ لوگ کسی کاروبار کی طرف متوجہ ہو جائیں گے، مگر ابھی میں ان بھکاری لوگوں کی بات کروں گا جو کبھی کاروبار کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ یہ بھکاری مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، معاشرہ ان کو اس لیے احترام دیتا ہے کیوں کہ انھوں نے قرآن مجید کو حفظ کیا ہوتا ہے۔

ہمارے مدارس میں باقاعدہ طور پر مانگنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہر چھہ ماہ بعد لوگوں سے چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے۔ چندہ اکھٹا کرنے کے لیے مدارس کے بچوں کو گاؤں گاؤں بھیجا جاتا ہے، پھر مدارس میں بچوں کی دنیاوی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ بچوں کو کسی قسم کا کوئی ہنر نہیں سکھایا جاتا، جس سے وہ آنے والی زندگی میں اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ پاکستان میں مدارس 30 ہزار سے زیادہ ہیں مگر ان میں سے صرف 14 ہزار مدارس رجسٹر ہیں یعنی باقی تمام مدارس بے شک بچوں کو دہشت گرد بنا دیں، ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔

البتہ ہم سب سے جب بھی دین کی خاطر مدد مانگی جاتی ہے، تو ہم بغیر سوچے سمجھے مدد کرتے ہیں۔ ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہر سال تقریباً بیس لاکھ ایسے لوگ مدارس سے نکلتے ہیں جو اپنا کوئی روزگار نہیں بنا سکتے اور نہ ہی ان کے پاس ایسا کوئی ہنر ہے جس سے کما سکیں۔ آخر کار وہ لوگ کسی مسجد، کسی درگاہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں سے مانگ کر کھاتے ہیں۔

جہاں حکومت پاکستان کی توجہ اس طرف دلانے کی ضرورت ہے، وہاں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہمیں دینی مدارس کے علما سے پوچھنا چاہیے کہ کیا بچوں کو کوئی ہنر سکھایا جاتا ہے؛ اگر نہیں تو ان بچوں کی خاطر مدارس میں کوئی ہنر سکھانے کا انتظام کرنا چاہیے۔ پاکستان کو بھکاریوں کی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کو بدل سکیں، اور یہ تبھی مکمن ہے، جب ہم ہر سال بیس ہزار بے کار لوگ پیدا نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).