غلام کا غصہ غلام پر


انا اور خود داری دو الگ الگ کیفیات ہیں مگر ہم انھیں اکثر خلط ملط کر دیتے ہیں۔حالانکہ خود داری خود شناسی سے جنم لیتی ہے اور انا اندر چھپی جہالت سے۔ خود داری پیغمبرانہ وصف ہے اور انا پرستی فرعونیت۔ خود داری بینا اور انا نابینا۔

جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی انا کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے تو غالباً ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی کی خود داری کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ انا کو ٹھیس لگنا تو صحت مند عمل ہے، انا ٹوٹے گی تو خود داری کو باہر آنے کا موقع ملے گا۔

مگر یہ اصطلاحی کنفیوژن ہماری لسانی و نفسیاتی رگوں میں اتنا سرایت کر گیا ہے کہ اس کے اثرات روزمرہ زندگی پر نمایاں ہیں۔ چونکہ ہمارے روزمرہ میں صحت مند ذہنی و جسمانی متبادلات بہت کم ہیں لہذا گھوم پھر کے ستر فیصد روزمرہ سیاسی گفتگو کے مدار میں ہی چکر لگاتے لگاتے ہر شب تھک کے سو جاتا ہے۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ اب سے پہلے جب مرکز یا صوبوں میں مخلوط حکومت سازی کی بھاگ دوڑ ہوتی تھی تو عموماً اکثریتی پارٹی کا سربراہ چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بنفسِ نفیس ان کے مراکز تک جایا کرتا تھا تاکہ ہم آہنگی یا خیرسگالی کا تاثر دیا جا سکے۔ بھلے وہ نائن زیرو ہو کہ منصورہ کہ گجرات ہاؤس کہ ولی باغ کہ بگٹی ہاؤس کہ مینگل ہاؤس یا کسی آزاد امیدوار کا ڈیرہ۔

مگر پچیس جولائی کے بعد سے پہلی تبدیلی یہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر کا اپنے گھر تک محدود رہنا اور ہر آنے والے یا لائے جانے والے سیاسی و انتخابی مہمان کا استقبال کرنا اور تصویر کھنچوانا۔ بیرونی ممالک کے سفرا اور بریفنگ دینے والے بیوروکریٹس کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر جب آزاد منتخب ارکانِ اسمبلی سے لے کر سکہ بند سیاسی جماعتوں کے منتخب اراکین کے وفود کے لیے بھی صرف یکطرفہ دیدہ و دل راہِ فراش ہو تو لگتا ہے گویا عالم پناہ کی رسمِ تاجپوشی سے پہلے پہلے بنگال تا گجرات اور کشمیر تا دکن تک پھیلے چھوٹے بڑے رجواڑوں اور باجگذار و مالگذار علاقہ جات کے منصب دار صاحبِ عالم کو ہدیہ پیش کرنے تشریف لا رہے ہیں یا پھر انیس سو گیارہ کے دلی دربار میں جارج پنجم کی آمد آمد کا کورنشی ماحول رچا ہوا ہے۔

ہم تو یہ دیکھ دیکھ کے بڑے ہوئے کہ ایسی جماعت جسے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو اس کا سربراہ اور ہم نوا اکثریت کے حصول تک محوِ سفر اور ’’ کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا ‘‘ کی تصویر بنے رہتے تھے۔ مگر نئی سیاسی تہذیب یہ ہے کہ بندہ اپنی نشست پر براجمان ہے اور نمبر خود آ کر سلامی دے رہے ہیں۔ یہ کرم ہے کہ کرامت، اﷲ جانے۔

مگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کو شائد یہ نیا کلچر ہضم ہونے میں وقت لگے گا۔ سردار صاحب اسلام آباد میں چار روز قیام پذیر رہے کہ جسے ضرورت ہو بلوچستان ہاؤس چلا آئے۔

یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں

اب اور کتنا گناہ گار کرنا چاہتے ہیں

یہ انا ہے کہ خودداری میں نہیں جانتا۔دوسری جانب عمران خان جنھیں اس وقت مستحکم حکومت کے قیام کے لیے شمر ہو کہ حر، ہر ایک کے حمائیتی ووٹ کی ضرورت ہے۔اس کے باوجود وہ بلوچستان ہاؤس تک چل کے نہیں گئے بلکہ منتظر رہے کہ روایتی بلوچ سردار بنی گالا آ کر سلام و نذر گذارے۔ یہ انا ہے کہ خودداری مجھے نہیں معلوم۔

مجھے تو ڈی چوک کے طویل دھرنے کی وہ ایک رات بھی یاد آ رہی ہے جب بیچ تقریر کے شیخ رشید نے کان میں کچھ کہا اور خان صاحب خطاب ادھورا چھوڑ کے کہیں روانہ ہو گئے۔ جب چند گھنٹوں بعد دھرنے میں واپس لوٹے تو مسرت کی سرخی ملگجے اندھیرے میں بھی تمتما رہی تھی۔یہ انا تھی کہ خود داری مجھے نہیں معلوم۔

صاف ستھری سیاست جیسے الفاظ اب کتابوں میں ہی ملتے ہیں۔ہماری آج کی دنیا سے ان لفظیات کا کوئی لینا دینا نہیں۔آج جب کوئی کہتا ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تو عملاً مراد یہی ہوتی ہے کہ جو بھی سمجھوتہ ہوگا بے اصولی پر ہوگا۔

مجھ جیسے کوڑھ مغزوں کو تو یہ تک پلے نہیں پڑ رہا کہ اگر پچیس جولائی فراڈ ہے تو پھر چند حلقوں کی ری کاؤنٹنگ کا مطالبہ ہی کیوں؟ سب فراڈ ہے تو جہاں جہاں چانس نظر آ رہا ہے وہاں وہاں حکومت سازی یا ساجھے داری کی آس کیوں؟ اے این پی بلوچستان کی صوبائی حکومت کا حصہ بننے میں کیوں دلچسپی لے رہی ہے اور خیبرپختون خوا میں انتخابی فراڈ کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں کیوں نکالنا چاہتی ہے۔ سب فراڈ ہے تو پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن میں کیوں ہے اور سندھ میں کیوں حکومت بنا رہی ہے۔ سب فراڈ ہے تو شہباز شریف پنجاب میں حکومت سازی کو حسرت بھری نگاہ سے کیوں دیکھ رہے ہیں اور سب فراڈ ہے تو پھر وزیرِ اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لینا کیوں حلال ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بکرے کا سر حلال اور دھڑ حرام؟

جو کام آج آپ کر رہے ہیں کل یہی کام عمران خان کر رہے تھے تو کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کا الاپ چل رہا تھا۔ فضا میں ہر طرف یہ فقرے اڑ رہے تھے کہ اسمبلیوں کو بے غیرت کہنے والو اسمبلیوں سے الاؤنس کیوں وصول کر رہے ہو؟ دو ہزار تیرہ میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر پرویز خٹک استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو استعفیٰ جمع کرانے کا ڈرامہ کرنے والے خیبر پختون خوا اسمبلی میں اپنے ارکان کو مستعفی ہونے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟

انیس سو ستتر کے الیکشن بھٹو نے کرائے تو آپ نے کہا یہ فراڈ ہے، ہم نہ اسمبلیاں مانتے ہیں نہ بھٹو کو۔ ناجائز حکومت گھر جائے یا پھر تازہ انتخابات کرائے۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ پی این اے کا ایک اصولی موقف تھا۔ آج بھی وہ جماعتیں حیات ہیں اور ان میں سے بیشتر دو ہزار اٹھارہ کے انتخابی نتائج کو بھی جائز نہیں سمجھ رہیں تو پھر دھاندلی کا مجرم کون ہے؟ جیسے بھٹو کا نام لیا تھا ویسے کھل کے نام لو نا۔ تب تو ازسرِنو انتخابات سے کم آپ کسی فارمولے پر راضی نہ تھے۔ آج بھی وہی اصولی موقف اپناؤ نا۔ مگر آپ ایسا کیوں کریں گے۔ انیس سو ستتر میں بھی آپ نے وہی کیا جو بتایا گیا اور آج بھی آپ وہی کریں گے جو بتایا جائے گا۔ شو روم کتنا ہی بدل جائے گودام تو وہی ہے نا۔

پھر اسی بے وفا پے مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

اسی طرح لچک اور ثابت قدمی نے بھی اپنی جگہ اور معنی بدل لیے ہیں۔ جہاں ثابت قدمی دکھانے کی ضرورت ہے وہاں انتہائی لچکدار رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور جہاں لچک دکھانا ہے وہاں ماش جیسی اکڑ دکھائی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی اور نون دیگر جماعتوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وسیع تعاون پر رضامند ہیں۔ مگر پنجاب میں شہباز شریف کو حکومت سازی کے لیے اپنے چھ ارکانِ اسمبلی دان کرنے سے پیپلز پارٹی انکاری ہے۔ اس انکار کے پیچھے دلیل کیا ہے ذرا اس کا لیول ملاحظہ کیجیے۔

’’ ڈان اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے جو چھ ارکان پنجاب اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں۔ان میں سے چار کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔یہ چاروں شہباز شریف سے صوبائی سطح پر عددی تعاون کرنے کے کٹر مخالف ہیں کیونکہ دو ہزار پندرہ میں مسلم لیگ ن نے رحیم یار خان ڈسٹرکٹ کونسل میں پیپلز پارٹی کے حمائیتی ارکان کی اکثریت کے باوجود کونسل پر اپنا چیرمین مسلط کر دیا۔ بتائیے کہاں کا غصہ کہاں نکالا جا رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں حالات کی نزاکت کا ادراک اور سیاسی بصیرت۔

ایک ترک کہاوت ہے، غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).