جگنو محسن کی ذہانت اور صلاحیت صوبائی اسمبلی نہیں، قومی سیاست کا افق مانگتی ہے


جگنو محسن کچھ عرصہ خبرناک کی میزبان بھی رہیں اور میری ان سے شناسائی کا دور وہی یے۔ یہ پچھلے برس مئی کا مہینہ تھا جب ان کے ساتھ باقاعدہ کام کرنے کا موقع ملا۔ اب تو وہ پنجاب اسمبلی کے لیے شیر گڑھ سے الیکشن جیت گئی ہیں۔ اس کالم کا باقاعدہ آغاز کرنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ جگنو محسن مجھے بالکل پسند نہیں کرتیں اور مجھ سے شدید ناراض ہیں بلکہ مجھے بہت سی خرافات کا ذمہ دار بھی سمجھتی ہیں جن میں سے ایک خود ان کا پروگرام میں نہ چل سکنا بھی ہے۔ انہوں نے پروگرام کیوں چھوڑا کا جواب میں تحریر کے آ خر میں دوں گا۔

فی الحال میں یہ بتانے میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ جگنو محسن جیسی Mimicry کرنے والی ( اس انگریزی لفظ کی کوئی اردو موجود نہیں ۔ لفظ نقالی اس کا احاطہ نہیں کرتا)، کہانی سنانے والی، حاضر جواب اور بزلہ سنج خاتون کوئی دوسری نہیں۔ لیڈی ڈیانا، جماءما خان، ملکہ ترنم نور جہاں، عمران خان، نجم سیٹھی، عاصمہ جہانگیر ، فریدہ خانم، نواز شریف، شہباز شریف اور بہت سے دوسروں کی mimicry وہ کمال مہارت سے کرتی ہیں۔ انکی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ججمنٹل بالکل نہیں ہیں اور سیاست پر تجزیہ کرتے ہوئے تو بالکل ججمنٹل نہیں ہوتیں۔ اسکی وجہ شاید ان کا کئی دہائیوں تک فرائیڈے ٹائمز کے لیے کارٹونوں والا صفحہ تیار کرنا اور بے لاگ سیاسی تجزیہ کرنا تھا۔ ویسے بھی وہ اس جنریشن سے ہیں جن کے لیے صحافت اپنے تئیں سونے سے پہلے حکومتیں گرانے، سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے اور غیر سیاستدانوں پر تعریف کے ڈونگرے برسانے، چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ہر روز قلم کا رخ مفاد کی جانب موڑنے، باقاعدہ پارٹی بن جانے اور اپنے پسندیدہ ( یا فائدہ پہنچانے والے) لوگوں کے ہر برے کام کا دفاع کرنے کا نام نہیں بلکہ حقائق پر ادبی پیرائے میں یوں تجزیہ کرنا ہوتا کہ تحریر پڑھتے ہوئے ایک ادب پارہ محسوس ہو اور قاری غیر شعوری طور پر لکھاری کا مدعا بھی سمجھ جائے۔

جگنو محسن کیونکہ انگریزی میں پڑھتی ہیں اور کیمبرج سے قانون کی ڈگری بھی رکھتی ہیں، شاید اس لیے اردو شعر و ادب سے وہ شغف نہیں رکھتیں جو کہ ہونا چاہیے تھا البتہ بڑے بڑے ادباء ان کے لیے بھارت سے بالخصوص کھنچے جلے آ تے ہیں۔ سیٹھی صاحب سے ملاقات اور شادی بھی ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور ان کے خاندان میں ( جو کہ بہت ہی شائستہ اور علم دوست ہے) فکری و سماجی آزادی بہت احترام کے ساتھ موجود ہے۔ جگنو بتاتی ہیں کہ وہ کیمبرج پڑھنے گئیں تو ہر شخص نجم سیٹھی صاحب کا دلدادہ تھا ۔ جگنو خود ایک جاگیر دار (لیکن اعلیٰ اقدار والے) گھرانے سے تھیں اور دور کہیں اپنے پس منظر کا تفاخر بھی رکھتیں تھیں۔ بہت متاثر ہوئیں اور واپسی پر بہانے سے کتابوں کے اس سٹور پر جانے کا قصد کیا جو سیٹھی خاندان چلاتا تھا ۔ بتاتی ہیں کہ سیٹھی صاحب ایک کتاب پڑھنے میں منہمک تھے اور انہوں نے ایک نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ جگنو نے بہانے سے سفر کےدوران کوئی دلچسپ کتاب تجویز کرنے کا کہا تو موصوف عالمی تعلقات عامہ اور عالمی جنگوں کی تاریخ پر کتابیں دکھانے لگے ۔ جگنو کہتی ہیں ، “میں دل وچ کہا, فٹے منہ! ایہناں خشک بندہ”۔ بہر حال یہ انکی پہلی اور غیر رسمی ملاقات تھی۔

جگنو محسن بہت ہی درد مند دل رکھنے والی خاتون ہیں جو اپنے مقابل یا مخالف پر سبقت لے جانے یا بدلہ لینے کے لیے تو ہر قسم کا ہتھکنڈا اپنا سکتی ہیں لیکن گرد و نواح کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتی ہیں۔ انہیں اپنے گاؤں والوں کے کاموں کی فکر ہمیشہ کھائے جا رہی ہوتی یے۔ ایک بار میں نے پوچھا کہ ان کی کزن ڈاکٹر نیلوفر قاسم مہدی اتنا پڑھے لکھے ہونے اور سیاسی اپچ رکھنے کے باوجود صحافت میں نام نہیں کما سکیں تو جگنو نے کہا کہ صاحب ثروت لوگوں میں خود کو منوانے کی تڑپ کم ہوتی ہے ۔ میں یہ جواب سن کر حیران ہوا کیونکہ خود جگنو میں یہ تڑپ بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ اس تڑپ میں ایک بری بات یہ ہے کہ جگنو بچوں کی طرح ہر چیز جو انہیں درکار ہو ، اپنا خداداد حق سمجھتی ہیں۔

آ پ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ جگنو محسن آزاد جیت کر ممکنہ حکمران اتحاد کو ووٹ دیں گی اور دینا بھی چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے سیٹھی صاحب کی پی سی بی والی سیٹ بچ جائے حالانکہ جو کام سیٹھی صاحب نے کیا ہے وہ بڑے بڑے جغادری نہیں کر سکے۔ جگنو محسن نظریاتی اعتبار سے پیپلز پارٹی، سماجی اعتبار سے ن لیگ اور سیاسی اعتبار سے اب حکمران اتحاد کے زیادہ قریب ہیں لیکن وہ عمران کو زیرک سیاستدان ہر گز نہیں سمجھتیں اور شاید یوں عمران حکومت کا ہر اچھے برے میں دفاع بھی نہ کر سکیں گو کہ میں نے ان سے ریحام خان کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب غیر متوقع طور پر عام عورتوں والا ہی تھا کہ اس نے عمران کو پھنسایا ہے یا کسی نے عمران کو پھنسایا ہے وغیرہ۔ ریحام کی کتاب آ نے اور اس کے خلاف ممکنہ گورنر صاحب کا عدالت سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ اخلاقی لحاظ سے ریحام کو واک اوور دے دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جگنو محسن کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہیے تھا کیونکہ عوام کے لیے جو کام شیر گڑھ میں انہوں نے کیے ہیں کسی کا خاصہ نہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک دوست کے بہنوئی ترکی میں پھنس گئے ۔ معاملہ خاصا پیچیدہ تھا لیکن جگنو  نے دن رات ایک کر کے اسے ترکی سے نکلوایا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں جب تک کہ وہ گھر نہیں پہنچ گیا۔

عمران اگر اپنی انا کے خول سے باہر نکل سکیں تو جگنو سے بہت کام  لے سکتے ہیں۔

جگنو محسن کا خبرناک میں کامیاب ہونا بھی یقینی تھا لیکن انہیں بہت زیادہ وقت نہیں ملا ، دوسرے بات یہ کہ سیٹھی صاحب کا ن لیگ سے قریب ہونا جگنو کے خلاف گیا کیونکہ سطحی جذباتیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ تحریک انصاف کے معتقدین دکھاتے ہیں۔ پھر یہ کہ تکنیکی اعتبار سے پروگرام میں جو زیادہ بولتا ہے اسے ہی ناظرین کو باندھ کر بھی رکھنا ہوتا ہے ۔ جگنو محسن زیادہ بول کر کم وقت کے لیے ناظرین کو باندھ پاتی تھیں۔ یہ بات سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارا ایک ہیرو، شان، بھی یہ بات نہ سمجھ سکا اور چھ ماہ میں ریٹنگز میں بھی گر گیا اور اس پائیدان سے بھی جہاں اسے راتوں رات متمکن کیا گیا تھا ۔ ایک اور وجہ یہ کہ جگنو صاحبہ عمر کے اس حصہ میں تھیں جہاں منو بھائی تو گھنٹوں ان کی باتیں سن سکتے تھے لیکن نوجوان نسل اتنا اچھا ذوق نہیں رکھتی۔ ہمیں بہت سخت ناپسندیدگی برداشت کرنا پڑتی تھی حالانکہ جگنو محسن جیسی باصلاحیت خاتون ٹی وی انڈسٹری میں نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).