آ جا چھوری۔۔۔ میدان حاضر ہے


ہم ہمیشہ ہی دوسروں کی خوشی میں ناچتے آئے ہیں۔ ہمیں خوشی مناتا دیکھ کر بہت سے چہروں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے کیونکہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے مردہ جسم میں بھی جان پڑ گئی ہو۔ لیکن پہلی بار ایسا ہوا جب شیدی اپنے لئے ناچے اور وہ موقع تب آیا جب میں خواتین کی مخصوص نشست کے لئے منتخب ہوئی۔ یہ الفاظ ہیں بدین کے شہر ماتلی کی رہنے والی تنزیلہ قمبرانی کے جو پیپلز پارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست کے لئے منتخب ہوئی ہیں اور یوں وہ سیاست میں قدم رکھنے والی شیدی قبیلے کی پہلی خاتون بن گئیں۔

اس سے قبل سندھ ہی کی ایک اور بیٹی کرشنا کماری کوہلی جب سینیٹر منتخب ہوئی تو پورے ملک کے کونے کونے سے یہ صدائیں بلند ہوئیں کہ یہ کیا ماجرا ہوا کہ سندھ کے پسماندہ ننگر پارکر کی چھوکری ایوان بالا جا پہنچیں کیا پھر سے کوئی ماروی اس سماج سے ٹکر لینے جارہی ہے؟ خود کو کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ یہ سوالات نہیں وہ خوف تھا جو ایک بار پھر سے ان کے سروں پر منڈلانے لگا تھا جو ہمیشہ سے اٹھتے بیٹھے، کھاتے پیتے خود کو محلات میں اور ایوانوں میں حکمرانی کرتے دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کوئی محل تعمیر کرے اور ساتھ میں کسی بڑھیا یا مزدور کی جھونپڑی ہو تو کیسے برداشت ہو۔ یہی کیفیت اس روز بہت سے دل و دماغ میں تھی جب کرشنا کماری اپنے روایتی لباس میں ایوان بالا پہنچی۔ کسی نے اسے سراہا تو کسی نے اسے شہرت حاصل کرنے کا ایک حربہ قرار دیا لیکن دوسرا جھٹکا ان لوگوں کو تب لگا جب اسی پارٹی نے ایک شیدی قبیلے کی خاتون کو سیاست کے پر خار راستے کو چننے کی خواہش کو خوش آمدید کہتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ آجا چھوری میدان حاضر ہے منوا اپنا آپ، اور پورے کر اپنے خواب۔۔۔

تنزیلہ جب کراچی پہنچیں تو ان سے ملاقات کرنے اور انٹرویو کرنے کے لئے بے شمار لوگ ان سے رابطے میں مصروف تھے میں جب پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل پہنچی تو میرے ساتھ موجو د ایک انٹرنی جو رپورٹنگ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس کے لئے پہلا تجربہ تھا کہ وہ کوئی انٹر ویو اپنے سامنے ہوتا دیکھے۔ ابھی اس کے مجھ سے سوالات جاری تھے کہ تنزیلہ کمرے میں داخل ہوئیں میں نے کھڑے ہوکر ا ن سے ہا تھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے دس منٹ مانگے اور بالائی منزل پر چلی گئیں۔ ان کے عام سے لباس اور یوں عوامی انداز کو دیکھ کر میرے ساتھ آئی انٹرنی نے بے ساختہ کہا کیا واقعی یہ ایم پی اے منتخب ہوئی ہیں؟ ان کو دیکھ کر تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ گھر کے کپڑوں میں آ گئی ہیں۔ میں اس کے ذہن میں جنم لینے والے سوالات اور الجھنوں کو ختم کرسکتی تھی لیکن سوچا کہ جب انٹرویو ہوگا تو اسے ایک ایک کر کے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے۔

تنزیلہ سے گفتگو کا آغاز ہوا تو وہ بہت بااعتماد دکھائی دیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ خواتین کی عمر پوچھنا “جائز” نہیں لیکن پھر بھی اپنی معلومات کے لئے جسارت کروں گی تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھٹو کی پھانسی سے دو ماہ قبل میں پیدا ہوئی تھی میں نے کہا آپ نے حساب ویسے ہی رکھا ہے جیسے ہمارے ملک کی مائیں رکھتی ہیں کہ جب ایم کیو ایم بنی تو میری بڑی بیٹی پیدا ہوئی، ضیاءالحق کا طیارہ تباہ ہوا تو اگلے روز بیٹا پیدا ہوا، 92 کے کراچی آپریشن پر چھوٹی پیدا ہوئی۔ اس پر وہ ہنسیں اور پھر انٹرویو ایسے شروع ہوا کہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے میں تنزیلہ کو بہت عرصے سے جانتی ہوں۔

تنزیلہ سندھ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز ہیں۔ انکے والد وکیل جبکہ والدہ ریٹائرڈ معلمہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو ان کی آئیڈیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے انھوں نے ہوش سنبھالا اپنے قبیلے اور گھرانے کو پیپلز پارٹی کا متوالا اور جیالا ہی پایا۔ ان کے کان میں آج بھی ہر وقت “دلاں تیر بجا” کی دھن سنائی دیتی ہے۔ جب بھی انتخابات ہوتے اور پیپلز پارٹی کے لئے الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہوتیں تو اسی نغمے پر وہ محلے کے دیگر بچوں کے ہمراہ ناچتی گاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس برس جب پارٹی نے انھیں چنا تو اس بار ماتلی کی گلیوں میں جشن منانے والا ان کا آٹھ برس کا بیٹا شامل تھا۔

بدین میں لگ بھگ تیس ہزار کے قریب شیدی بستے ہیں۔ یہ قبیلہ افریقہ سے تعلق رکھتا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ ان سیاہ فاموں کو غلامی کے لئے برصغیر منتقل کیا گیا۔ ان پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ بعد ازاں جب ہندوستان میں غلامی پر پابندی عائد ہوئی تو یہ سب لوگ مختلف جگہوں پر جا بسے۔ مذہب تبدیل ہوئے لیکن طور اطوار، روایات، رسومات آج بھی افریقی باشندوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ خاص کر خوشی منانے کا انداز آج بھی وہی ہے جو افریقہ میں رائج ہے۔ تنزیلہ نے بتایا کہ جب ان کے منتخب ہونے کی خبر انکی کمیونٹی کے لوگوں میں پہنچی تو روایتی ڈرم ” موگو ” جسے اب سندھ میں موگرمان کہا جانے لگا ہے اس پر رات ڈھائی بجے اس کمیونٹی نے ڈانس کیا۔ تنزیلہ کے لئے یہ الفاظ ہمیشہ یادگار رہیں گے جو انکے قبیلے کے لوگوں نے ناچتے گاتے ہو ئے کہے ” ہم اب تک ناچتے گاتے تھے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے لیکن آج ہم خوشی منارہے ہیں اپنے لئے اور اس کا مزہ پہلے کبھی نہیں آیا “۔

تنزیلہ نے سیاست کو حساب کی الجھی پہلیوں کی طرح سلجھانے کے لئے چنا ہے کیونکہ میتھس انکا پسندیدہ مضمون ہے۔ ان راستے کو جس میں کانٹے بھی ہیں، الزامات بھی، عورت کو مات دینے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال بھی تنزیلہ اس کا مقابلہ کرنے جا نہیں رہیں، بہت پہلے سے کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جب اپنے علاقے ماتلی سے کونسلر منتخب ہوئیں تو ہی انھیں اندازہ ہوا کہ مردوں اور طاقتوروں کے اس معاشرے میں انھیں بہت کچھ سننا اور سہنا ہوگا۔ جب وہ میونسپل چئیرمین کے لئے نامزد ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے ہی بہت سے مقامی با اثر افراد نے ان کے خلاف آواز بلند کردی کیونکہ ا نکے نزدیک ایک عورت کا اس منصب پر آنا تو ناقابل قبول تھا ہی ساتھ ہی شیدی قبیلے کا نمائندگی کرنا جنھیں وہ کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے یہ ان کی نام نہاد عزت کے خلاف تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود نہ صرف پارٹی نے ان کا ساتھ دیا بلکہ مخالفت کرنے والوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ تنزیلہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو بہت بدلا ہے اب تعلیم یافتہ بھی ہوئے ہیں پرانے فرسودہ رواج سے علیحدہ بھی کیا تاہم سوچ کو بدلنے کا سفر ابھی بھی جاری ہے۔ عورت کمزور ہے، غریب محکوم ہے اس سوچ سے لڑنے میں ابھی بھی بہت وقت درکار ہے۔ یہی نہیں انکے مخا لفین میں وہ لوگ جو بدین کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اب تنزیلہ کی کامیابی کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے اس لڑکی کو کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے ڈھیل دیدی اسے جانے دیا اگر معلوم ہوتا کہ اس کی پرواز یہاں تک ہے تو شاید بہت پہلے پر کاٹ دیتے۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ بلاول بھٹو کی شکرگزار ہیں جو ناقدین کو یہ جواب دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی فیوڈل لارڈ کی پارٹی نہیں، اس میں اپنی زمین اور اس کی جڑوں سے جڑے لوگ اب بھی شامل ہیں اور آگے بھی آتے جائیں گے۔

خواتین کی صحت و تعلیم اور صاف پانی تنزیلہ کی اہم ترجیحات ہیں کیونکہ ان کے نزدیک تمام مسائل گھوم پھر کر ان ہی مسئلوں پر آکر رکتے ہیں۔ انٹرویو کے ا ختتام پر کیمر ہ بند ہونے اور رخصت لیتے وقت انٹر نی نے پرجوش ہوکر تنزیلہ سے سوال کیا اگر آپ طاقت اور منصب مل جانے کے بعد بدل گئیں تو۔۔۔؟ تنزیلہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہم جس مٹی سے ہیں وہاں ہماری جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ بدلنے کا سوال نہیں اگر ایسا ہوا تو ہمارے اپنے ہمیں قبول کرنے سے انکار کردیں گے ہمیں فراموش کردیں گے، بھلا شناخت کے بنا بھی کوئی جی پایا ہے؟ مجھے ایسا سودا ہرگز منظور نہیں۔

ہاں لڑکی تو کیسا لگا انٹرویو اور یہ عام سی ایم پی اے؟ میں نے انٹرنی سے سوال کیا۔ بہت اچھا بلکہ بہترین، میں غلط تھی جو پہلے ہی رائے بنا بیٹھی۔ اگر ایسے ہی بااعتماد او ر اپنے لوگوں کے لئے درد رکھنے والے جو متوسط طبقے سے ہوں ایوانوں میں پہنچیں تو بہت کچھ بدلے گا۔ تنزیلہ سے مل کر ایسا لگ رہا ہے کہ امید رکھنی چائیے وقت اور حالات ضرور بدلیں گے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar