آفس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنسنے رونے والی لڑکی


سعدیہ اور ماجدہ، نہ صرف قد کاٹھ بلکہ مزاج میں بھی فرق تھیں لیکن پھر بھی ان دونوں کی جوڑی بہت مضبوط تھی۔ شاید میڈم کے ظلم و ستم کی وجہ سے وہ دونوں ہی کیا، ہم سب مختلف مزاج، عادتیں، حتی کہ مختلف جینڈر کے ہو نے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ دلوں سے جڑ چکے تھے۔ لڑکا لڑکی تک کا فرق ختم تھا۔ کیونکہ لڑکوں کا استحصال بھی اس برانچ میں لڑکیوں ہی کی طرح ہو رہا تھا۔ دکھ سانجھا ہو تو اس سے بڑا رشتہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا اور ہم اس کی عملی تصویر تھے۔ ان دو لڑکیوں کے بعد دو لڑکوں ہاشم اور احسن کی جوڑی بھی تھی۔

آج کا واپڈا ٹاون تو گنجان آباد ہو گیا ہے اس وقت جب وہ دونوں وہاں سے اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر ہیلمٹ پہنے برانچ کے سامنے لینڈ کرتے تھے تو ہم انہیں خلائی مخلوق کہہ کر چھیڑتے تھے۔ احسن عمر میں ہم سب سے چھوٹا تو تھا ہی اس کے چہرے پر ہائی سکول کے بچوں والی ایک لک تھی جس کی وجہ سے وہ ہماری برانچ کا بے بی تھا۔ نظر کی عینک لگاتا تھا اور سلکی، کالے بال اس کے ماتھے پر گرتے تھے، اوراس کے برعکس ہاشم کے گھنگھریالے سخت بال تھے۔ اور جب بھی اسے اپنی بات میں وزن پیدا کرنا ہو تا، وہ ایک سفید لٹ بڑے سٹائل سے جھٹک کر پیچھے کر تا تھا۔

اس زمانے میں سب کے اپنے اپنے خواب ہوا کرتے تھے جیسے کہ مجھے اور ہاشم کو باہر کے ملک جانے کا شوق تھا۔ مجھے وہاں کی یونیورسٹی میں پڑھنے اور سیر سپاٹے کی حد تک جب کہ ہاشم کو وہاں سیٹ ہو نے کا۔ تو جب ہم انتہائی حسرت سے بیٹھ کر یہ خواب دیکھا کرتے تو صفوان کہتا تھا جن لوگوں کے خواب ایک جیسے ہوں، ان کی دوستی کتنی گہری ہو جاتی ہے۔ ہاشم کہا کرتا تھا کہ ہم ٹائم سکوائر کے باہر اگر گنڈیریوں کی ریڑھی بھی لگا لیں تو بہت پیسے کما سکتے ہیں۔ اور مجھے اس وقت صرف آزادی ایک حسین سپنا لگا کر تی تھی، تو میں کہا کرتی: مگر میں تو وہاں غبارے بیچا کروں گی اور انہیں ہوا میں بھی اڑا یا کروں گی۔ صفوان کہتا :اگر تم دونوں کی اجازت ہو تو کیا میں وہاں بیٹھ کر کبوتر اڑا سکتا ہوں؟ جب تم لوگوں کی ریڑھیاں آپس میں ٹکرائیں گی میرے کبوتر اڑ جایا کر یں گے۔ اس طرح کی بے معنی باتوں میں ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا۔

ماجدہ سر پر دوپٹہ اوڑھے کام کاج میں مشغول رہتی تھی، سب سے زیادہ کام میڈم نے اسی کے سپرد کر رکھے تھے۔ وہ تھی بھی بہت محنتی، جتنا کام وہ کرتی اتنے کا سوچ کر ہی ہمیں غش پڑ جاتے۔ میں اسے چائلڈ لیبر کے قوانین یاد کر انے کی کوشش کرتی کیونکہ مجھے لگتا اسے ان سے آگاہی کی سخت ضرورت تھی۔ دوسری طرف میڈم کی مہربانی کی وجہ سے میں صرف کیش آفیسرز زلفی اور ثاقب صاحب ( واحد شادی شدہ اور عمر میں بڑے آفسر تھے ) کے ساتھ بیٹھ کر لیجر پو سٹنگ ( جو اس زمانے میں مینوئل ہوا کرتی تھی ) کرتی رہتی۔

ماجدہ مجھے کچھ زیادہ ہی پیار کر نے لگ گئی تھی، پہلے صرف اسے سعدیہ کے دکھ درد سمیٹنے پڑتے تھے، لیکن میرے آنے کے بعد جو سلوک میرے ساتھ ہو رہا تھا، اس نے دستِ شفقت میرے سر پر بھی رکھ دیا تھا اور ویسے بھی ہماری وجہ سے وہ بہت ہنستی تھی۔ جیسے کہ ایک دفعہ ہم تینوں لنچ بریک میں ماجدہ کے گھر ( جو قریب تھا، تو کبھی کبھی جمعے کو جب لمبی بریک ہو تی تھی تو اس کی طرف ہم تینوں لڑکیاں چلی جاتی تھیں )۔ اس دن بھی وہ اپنی کار ڈرائیو کر رہی تھی، سعدیہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی اور میں پچھلی سیٹ پر، اس دن بہت واؤچرز اکھٹے ہو گئے تھے، ہماری برانچ میں قریبی سرکاری سکول کا اکاؤنٹ تھا، تو اس دن وہاں کے ٹیچرز کی تنخواہ کا دن تھا۔

سعدیہ، ماجدہ کو بار بار کہہ رہی تھی کہ آج برانچ میں ہی لنچ کر لیتے، بہت واوچرز ہیں۔ میں نے بات میں وزن ڈالنے کے لئے کہا آج تو سکول ماسٹروں نے ایسا کام دکھایا کہ وواچرز پریگننٹ ہو گئے ہیں، یہ فقرہ میرے منہ سے نکلنے کی دیر تھی کہ ماجدہ کو ڈرائیو کرتے ہو ئے ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ہم وحدت روڈ کے بیچوں بیچ تھے، ماجدہ نے وہیں بریک مار دی، اس کا پو را وجود بے تحاشا ہنسنے کی وجہ سے کانپنے لگا۔ میں اور سعدیہ گھبرا گئیں اور ہم نے اسے ہو ش میں لانے کی پو ری کوشش کی مگر وہ تقریبا آدھا گھنٹہ اسی حالت میں رہی اور گاڑیاں قریب سے ہارن بجا بجا کر گزرتی رہیں۔ آخر کار سعدیہ نے اسے میڈم کی کوئی خوفناک بات یاد کر ائی جس سے اس کی ہنسی کو بریک لگی اور ہم واپس زندہ سلامت برا نچ پہنچیں۔ تو یہ تھی سادہ سی ماجدہ۔

جب کریڈٹ کارڈ کی وبا ہر طرف پھیلنے لگی تو ہوا یہ کہ ہاشم اور احسن ان دونوں کے اندر بھی اسے حاصل کر نے کی معصوم خواہش جاگی۔ سٹی بنک یا کوئی اس طرح کا بڑا بنک یہ کارڈز دے رہا تھا اس کے لئے تنخواہ کا ایک معیار تھاجس پر وہ دونوں پو رے نہیں اترتے تھے۔ میری تنخواہ زیادہ تھی، مگر مجھے کریڈٹ کارڈ کا شوق نہیں تھا۔ خیر اس وقت، ان دونوں نے مجھے راضی کیا اور کہا ہم تینوں اپلائی کرتے ہیں اور مس ماجدہ ہماری غلط تنخواہ ویریفائی کر دیں گی۔ اپنی مہربان طبیعت کی وجہ سے وہ بمشکل مگرمان گئی، میڈم کی عدم موجودگی میں صرف ماجدہ کو فون ریسیو کرنے کی اجازت تھی یا شاید زاہد کو بھی۔ خیر ماجدہ نے ہمارے کہنے پر وہ سب کر تو دیا۔ مگر اس کے بعد اسے رونے کا دورہ پڑ گیا۔

جب میں نے ہاشم اور احسن کو گھبرائے گھبرائے ادھر اُدھر بھاگتے دیکھا تو پتہ چلا کہ ماجدہ نے رو رو کے زمین آسمان ایک کیا ہوا ہے اور کہے جا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بلوایا اب مجھے جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہم نے بات کو رفع دفع کر نے کی لاکھ کوشش کی مگر ہماری ہر تسلی کا الٹا اثر ہو تا اور وہ اور زور سے رونے لگ جاتی۔ میں نے ماسٹر کی کارروائی بھی یاد کروا کر ہنسانے کی کوشش کی لیکن سب بے کار۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ زاہد، جو ایک ہینڈ سم، ایم بی اے لڑ کا تھا اگرچہ میڈم کا نمبر 2 بننے کے بعد اس کی ساری شخصیت مسخ ہو چکی تھی اور دوسری برانچوں میں اس کی شہرت ایک بزدل کی طرح پھیلی ہو ئی تھی۔ ویسے آج میں سوچتی ہوں اس برانچ میں میڈم کے زیرِ سایہ رہنے والے سارے لڑکوں کی بیویاں بہت خوش قسمت ہیں، کیونکہ سب کو دب کے رہنے کی ابتدائی ٹریننگ مل چکی تھی۔ اس دن زاہد کو نجانے کیا ہوا، مجھے اس نے کوئی ایسا فقرہ لگایا جو ہماری برانچ میں لڑکوں لڑکیوں کا معمول نہیں تھا، ہم سب جینڈر فری محسوس کرتے تھے، مگر اس دن ذرا سیکسٹ سا ریمارک دیا۔

میں حالتِ صدمہ میں ماجدہ کے پاس فورا پہنچی اور اسے شکایت لگا دی۔ وہ ابھی تک کیش بک بیلنس کر نے کے ساتھ سا تھ رونے دھونے میں مصروف تھی، میری شکایت سنتے ہی اس کے رونے کو بریک لگی۔ اور وہ دھاڑتی ہو ئی ماجد کی میز پر جا پہنچی۔ آپ کی جرات کیسے ہوئی روبینہ کو یہ سب کہنے کی۔ وہ بچارہ گھگیایا۔ ”میں تو مذاق کر رہا تھا، ہم سب مذاق کرتے ہیں۔ نہیں؟ “۔
”لیکن ایسا اوچھا مذاق کرنے کی آپ کوجرات کیسے ہوئی۔ ؟ “

اس ڈسٹریکشن سے ہمیں دو طرفہ خوشی ملی، ایک تو زاہد کا میڈم کے سامنے جی حضوری والا رویہ، جو وہ سنئیر موسٹ ہو نے کی وجہ سے چیلنج کر سکتا تھا، مگر اس کے برعکس وہ بس منمناتا رہتا تھا، جس کی وجہ سے ہم سب اس سے شاکی رہتے تھے۔ اور دوسرا ہاشم اور احسن کی جان میں جان آئی کہ غصے کا رخ ان کی طرف سے ادھر مڑ گیا ہے۔ ورنہ وہ معافیاں مانگ مانگ کر ناکام ہونے کے بعد کریڈٹ کارڈ کینسل کروانے کے چکر میں تھے۔ بچارہ زاہد سر جھکائے، ماجدہ کی ڈانٹ سنتا رہا، نہ جانے آج بھی وہ سب عورتوں سے ایسے ہی خوفزدہ ہو تا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).