مدیر “ہم سب” کے خلاف بے بنیاد اشتعال انگیزی کی کوشش


میرا نام  وجاہت  مسعود ہے۔ میں 1988 میں صحافت سے منسلک ہوا۔ انگریزی اور اردو زبانوں میں پرنٹ ، الیکٹرانک اور آن لائن جرنلزم  سے وابستہ رہا ہوں۔ فکری طور پر نیشنل عوامی پارٹی کی روایت سے تعلق رکھتا ہوں جسے فروری 1975ء میں خلاف قانون قرار دیا گیا۔ 1986 عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام سے بحال کی گئی تو میں اس جماعت میں شامل ہوا۔  1989ء میں عوامی نیشنل پارٹی آئی جے آئی میں شامل ہوئی تو اس جماعت سے الگ ہو گیا اور اور اس کے بعد سے کوئی جماعتی وابستگی نہیں رکھتا۔

میرے سیاسی نظریات جمہوری، سیکولر اور لبرل ہیں۔ جمہوری فریم ورک میں میرا جھکاؤ سوشل ڈیموکریسی کی طرف ہے۔ میری نظر میں 21ویں صدی میں جمہوری فکر کے لئے سب سے بڑا چیلنج کھلی منڈی کی معیشت میں استحصال کے امکان اور جمہوریت کو اکثریت کے استبداد میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے۔ گویا سرمایہ دار معیشت اور جمہوری آزادیوں میں کیسے مطابقت پیدا کی جائے۔

میں سماجی طور پر مکمل انسانی مساوات اور رواداری میں یقین رکھتا ہوں۔ میں ہر انسان کے اس انفرادی حق کو تسلیم کرتا ہوں کہ وہ جو چاہے عقیدہ اختیار کرے، میں کسی کے عقیدے کو صحیح یا غلط نہیں کہتا اور نہ اپنے ذاتی عقائد کو پبلک میں زیر بحث لاتا ہوں۔ میں رنگ ، نسل، زبان، ثقافت اور جنس کی بنیاد پر ہر طرح کے امتیازی سلوک کی دوٹوک مخالفت کرتا ہوں۔ میں ملکی اور بین الاقوامی قوانین میں طے کی گئی آزادیوں کو فرد کے لئے حق انتخاب کے منطقے سمجھتا ہوں جن میں خارجی مداخلت کی گنجائش نہیں۔

میں پاکستان میں پیدا ہوا۔ دنیا کا کوئی قانون مجھے اپنے ملک کی شہریت سے محروم نہیں کر سکتا اور نہ مجھے اپنے ملک کے سیاسی ، معاشی اور سماجی امور میں حق اظہار سے محروم کر سکتا ہے۔ میں پاکستان کو ایک وفاقی مملکت کے طور پر قبول کرتا ہوں اور خود کو ملکی آئین اور قانون کے تابع سمجھتا ہوں۔ میرے نظر میں پاکستان پر حکمرانی کا حق صرف یہاں کے عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے۔ ایک جمہوری کارکن کے طور پر میں آئیں میں طے کردہ اداروں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی علیحدگی کے تصور کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں کسی بھی غیر منتخب ادارے کی سیاسی عمل میں مداخلت کی دوٹوک مخالفت کرتا ہوں۔

میں پاکستان کو ایک ترقی یافتہ، خوشحال اور پرامن ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی خوشحالی کی پائیدار بنیاد معیاری، مسابقت پذیر اور تحقیقی آزادی پر مبنی تعلیم ہی کے ذریعے رکھی جا سکتی ہے۔ میری رائے میں پاکستان کو چار بنیادی مسائل کا سامنا ہے:

عوام کی حاکمیت میں غیر آئینی مداخلت

امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے باعث مساوی شہریت کی پامالی

ریاستی ترجیحات میں جبری عدم توازن کے باعث مسلسل جمود اور خسارے کی معیشت

علمی، ثقافتی اور سماجی اقدار کے انتخاب میں ریاستی استبداد

میں گزشتہ 30 برس سے قومی مسائل پر تقریر و تحریر کے ذریعے اپنی رائے بیان کر رہا ہوں۔ میری متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں کسی سیاسی وابستگی کا پابند نہیں ہوں۔ میں اپنے ضمیر کی روشنی میں جمہوریت، انسانی حقوق ، شہری آزادیوں اور اظہار رائے جیسے معاملات پر اپنی رائے دیتا ہوں۔ 2011ء سے ملک کے کثیر الاشاعت روزنامہ جنگ میں ہفتے میں دو کالم لکھ رہا ہوں۔ میں نے 30 اگست 2016ء کو “سچا میڈیا، دوٹوک نوجوان اور خاموشی کی سازش” کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔ روز نامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس کالم کا لنک درج ذیل ہے

https://jang.com.pk/news/167778

اسی دن یہ کالم ہم سب کی ویب سائٹ انہی لفظوں میں شائع ہوا جس کا لنک درج ذیل ہے:

http://www.humsub.com.pk/24584/wajahat-masood-121/

آج مورخہ 7 اگست، 2018 کی سہ پہر ایک عزیز دوست نے اطلاع دی کہ اس کالم کے کچھ اجزا سیاق و سباق سے الگ کر کے یعنی 6 اگست کی صبح سے “یوتھیئے” کے عنوان سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ اس تحریر کو مجھ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو ذیل کا پیغام بھیجا:

“اس تحریر کا عنوان “یوتھیئے” ہے۔ میں نے یہ لفظ اپنی کسی تحریر میں نہ کبھی استعمال کیا ہے اور نہ کبھی اپنے منہ سے ادا کیا ہے۔ مییرا سیاسی پس منظر تقاضا کرتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کو پپلیا، نونیا، جماعتیا یا یوتھیا وغیرہ نہ کہوں۔
اس تحریر پر میرا نام دو لفظوں کی بجائے تین لفظوں میں لکھا ہے۔ سرکاری کاغذات میں میرا یہی نام ہے لیکن اپنی بالغ زندگی کے چالیس برس میں یہ تیسرا لفظ میں نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ میں ذات پات اور اس کے متعلقات کو مغلظ گالی سے بھی زیادہ برا سمجھتا ہوں۔ اپنے نام کے ساتھ ایسا لاحقہ ہرگز استعمال نہیں کرتا۔ غالباً اس اقتباس کو استعمال کرنے والا فرد (یا حلقہ) مجھ سے شخصی طور پر واقف نہیں اور اس نے کسی سرکاری ریکارڈ وغیرہ سے نام حاصل کیا ہے۔ ان دو لفظوں کے استثنیٰ کے ساتھ اس تحریر کا ایک ایک لفظ میرا ہی لکھا ہوا ہے۔ غالباً دو یا تین برس پرانا یہ کالم روز نامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔ اب اسے سوشل میڈیا پر پھیلانے کا کیا مقصد ہے اور ایسا کون کر رہا ہے، میں اس سے قطعی بے خبر ہوں۔”

میڈیا میں گردش کرنے والے تحریف شدہ اقتباس کا عکس ذیل میں دیا جا رہا ہے۔ 30 اگست 2016ء کو شائع ہونے والا مکمل کالم “ہم سب” کی ویب سائٹ پر الگ سے شائع کیا جا رہا ہے۔ میں اپنے لکھے ہوئے کالم کے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں البتہ کسی دانستہ یا غیر دانستہ تحریف کے لئے ذمہ دار نہیں ہوں۔ میں نے اس تحریر میں مختلف  امور پر اپنا ذاتی موقف کھل کر بیان کر دیا ہے۔ میں دوسروں کے حق اختلاف کا احترام کرتا ہوں تاہم کسی کے دباؤ یا اشتعال کا شکار ہو کر اپنی رائے نہیں بدلتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).