خبر کے چکر میں


1994 کا ذکر ہے، میں اور ساتھی صحافی پریس کلب سے شارع فاطمہ جناح انگریزی روزنامہ کے دفتر جارہے تھے، اس کے قریب چوک کراس کرتے اشارہ پیلے سے سرخ ہورہا تھا،میرے ساتھی نے موٹرسائیکل نہ روکی، ٹریفک کانسٹیبل نے چلتے میں اسے ہاتھ مارا، ہم گرتے گرتے بچ گئے، میرے ساتھی نے فوراً موٹر سائیکل روک کر سٹینڈ پر کھڑی کی اور جاکر کانسٹیبل سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی، وہ صورتحال بھانپ چکا تھا کہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہوگیا،کانسٹیبل نے اپنا لہجہ مزید تیکھا کیا اور کچھ غصے میں بولا اور باقاعدہ حملہ آور ہوا، ساتھی صحافی نے اسے دھکا دیا، وہ زمین پر گر گیا۔ میں بھی ان کے قریب گیا اور معاملہ رفع دفع کرانے ہی والا تھا کہ اچانک دو افراد شلوار قمیض میں ملبوس وہاں آئے بظاہر وہ جھگڑا ختم کرانے والے لگے، لیکن انہوں نے ہم دونوں کو گریبان سے پکڑا اور میرے دوست کو زدوکوب کرنے لگے، میں نے مزاحمت کرنا چاہی تو میرے ساتھ بھی ملتا جلتا سلوک ہوا،قریب ہی تھانہ سول لائن تھا وہ ہمیں دبوچ کر تھانے لے گئے وہاں محرر سے کہاانہیں لاک اپ میں بند کردو، ایسا ہی ہوا بلکہ ہمارے خلاف پرچہ بھی کاٹ دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا دونوں پولیس اہلکار تھے۔ صحافیوں نے تھانے کے بعد احتجاج کیا، حکومت کی گھنٹیاں بج گئیں، وزیراعلیٰ منظور وٹو اور سنیئر وزیر فیصل صالح حیات نے نوٹس لیا۔ پولیس اور حکومت کے اعلیٰ حکام تھانے پہنچ گئے۔ اگلے روز ہر اخبار کی خبر تھی۔ معروف کالم نویسوں نے قلم اٹھائے۔ پولیس افسروں کے بارے تحقیقاتی رپورٹنگ کی گئی۔

وزیراعلیٰ نے پوچھا تھا کیا چاہتے ہیں، ہمارے لیڈر نے کہا جسٹس،انصاف۔ اور پھر ہم دونوں اور وہ کانسٹیبل جوڈیشل انکوائری اور مقدمے کی پیشیاں بھگتتے رہے، غلطی کس کی تھی، معاملہ ایک اشارے کا تھا، اگر ہم نے توڑا تو چالان بنتا تھا، چھوٹی سے بات اور میڈیا پر حملے کا معاملہ بن گیا،کئی ماہ تک عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔

میڈیا والوں کو اپنی ذمہ داریوں کے دوران رکاوٹیں پیش آتی ہیں، لیکن ایسے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں،

سوشل میڈیا آنے کے بعد طرح طرح کی وڈیو سامنے آتی ہے، خصوصاً اس میں پولیس والوں کو ہدف بنایا گیا ہوتا ہے۔ غلطیاں نکالنا کوئی مشکل نہیں، ہم ہر غلطی پر پولیس والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، محاذ آرائی کی صورت میں شور مچ جاتا ہے۔

ضابطہ اخلاق پولیس اور دیگر اداروں کا بھی طے شدہ ہوتا ہے، میڈیا کے حدود وقیود اور کام کے طریقہ کار(ایس اوپی) سے ناواقفیت بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ ہر جگہ کیمرے کا پہنچ جانا بھی درست نہیں، کہیں اجازت مانگنے تک کی نوبت نہیں آتی۔ اگر کوئی منع کر دے پھر آزادی صحافت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

پولیس قانون اور اختیار کا غلط استعمال کرتی ہے، جس کی نشاندہی بھی اکثر ہوتی ہے، انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں، مگر معاملہ کچھ بہتری کے بعد پھر ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے۔

میڈیا والے موبائل فون پر کوئی بھی فوٹیج دکھانے سے گریز نہیں کرتے، کئی بار ذاتی نوعیت کی وڈیو بھی نشر کردی جاتی ہے۔ ہر بات کو خبر بنانے کا جنون، صحافت کی نئی تعریف بنتا جارہا ہے۔ ایسا نہیں خبر ملتی نہیں، مگر نان ایشو کو ایشو بنانے کے چکر میں لاہور میں ایک خبر بناتے بناتے،رپورٹر اور کیمرہ مین کی حرکت انجانے میں ایک بڑی خبر بن گئی۔ ٹی وی چینل نے رپورٹر کو معطل کیا ایسا بھی بہت کم ہوا، صحافیوں نے اس معاملے کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ دفاع کرنا ان کا حق ہے، لیکن کسی نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ کرنا کیا ہے ایسی صورتحال نہ پیش آئے۔ اس کا تعین کیسے ہوگا اور کون بتائے گا۔

اس کا تعین صحافیوں نے نہیں میڈیا مالکان اور انتظامیہ کو بھی کرنا ہوگا کیونکہ کے ان کی ریٹنگ اور ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے صحافی کسی بھی بات کو خبر بنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ طے کرنا ہوگا خبر کیا ہے۔ اور کیسے لانی ہے۔ ورنہ خبر بنانے کے چکر میں خبر بنتی رہے گی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar