عناصر میں ظہور ترتیب


زندگی حیاتیاتی اور کیمیائی عوامل کے تسلسل کا نام نہیں اور نہ ہی یہ عناصر کی وہ ترتیب ہے جس کا پریشان ہونا وجود کو عدم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ نہ یہ سانسوں کی ڈور، نہ دھڑکنوں کا آہنگ ، نہ فشار خوں ، نہ نبض رواں۔ غرضیکہ زندگی کو علامات حیات تک محدود کر دینا اس کی ایک نامکمل تعریف ہے۔ شاید زندگی کی روح خوابوں کے اس سیال مادے کی مانند ہے جو اسی صراحی ومینا و جام وسبو کی ہیئت میں بدل جاتا ہے جس میں اسے انڈیلا جائے۔ یہ ایک کہانی ہے ،دلدوز، بے مہر، رنگ آفریں ۔ اس کہانی کا مصنف کوئی اور ہے یا ہم خود؟، ہم قلم ہیں یا تحریر؟ یہ بحث لاینحل ہے اور شاید غیر متعلقہ بھی۔ کہانیاں کرداروں اور کرداروں کے باہمی تعلق کے تانے بانے سے معرض وجود میں آتی ہیں اور یہ باہمی تعلق مختلف صورتوں میں عیاں ہوتا ہے۔

کہیں یہ ماں کا اپنے بچے کا پہلا لمس میں ہے تو کہیں باپ کے خاموش احساس تفاخرمیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں کو ڈھونڈتی نگاہوں میں ،کبھی باپ کے ہونے کے احساس تحفظ میں۔ کسی بہن کے بے لوث پیار میں،کبھی بھائی کے خلوص میں ۔کسی بچے کی بے وجہ مسکراہٹ میں ـ، کسی دوست کے لا متزلزل اعتبار میں۔ کبھی کسی محب کی دل کی اس د ھڑکن میں جو محبوب کے قدموں کی چاپ سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ ہر کہانی کا ایک منظرنامہ بھی ہوتا ہے جو کرداروں کے زماں و مکاں کا تعین کرتا ہے۔ وہ فضا جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ وہ تارے جو کسی کی یاد میں ہم نے گنے ہوتے ہیں۔ وہ شجر جن کی چھاؤں میں ہم نے اپنی تھکن پھیلائی ہوتی ہے۔ وہ گلیاں جو پیچیدہ دلیلوں کی طرح ہمارے قدموں سے لپٹی چلی جاتی ہیں۔ وہ برگ وگل جو کسی کے حسن کا استعارہ ہیں۔ وہ خاموشی جو الفاظ کے جھروکوں سے جھانکتی ہے۔ وہ موسیقی جو ہم سن چکے ہیں،وہ دھنیں جو گنگنانی ابھی باقی ہیں۔ وہ ہفت رنگ ستارہ جو جستجو کا حاصل ہے۔ وہ دل کے سوکھے پتے پہ ٹپ ٹپ گرتے بارش کے قطرے، وہ د سمبر کی دھندمیں لپٹے خواب،وہ جون کی تپتی دوپہر جیسے جذبے، وہ بہار کے رنگوں کی سی امیدیں۔زندگی کی سازش میں یہ سب بھی برابر کے شریک ہیں۔

موت محض سانسوں، دھڑکنوں اور نبض کا تھم جانا نہیں، یہ اس تانے بانے کے ٹوٹ جانے کا نام ہے جو کرداروں کو اس منظر نامے سے، اور دوسرے کرداروں سے مربوط رکھتا ہے۔۱۹۹۲ کی فلم Unforgiven میں William Munny کا کردار قتل کرنے کے بارے میں کہتا ہے:

It’s a hell of a thing, killin’ a man. You take away all he’s got and all he’s ever gonna have.

یہاں تمام چیزوں سے مراد صرف مادی اشیاء نہیں وہ تعلق ، وہ رشتہ ہے جس کو ہم زندگی کا نام دیتے ہیں۔ انسانوں کے معاشرتی ارتقاء میں نہ جانے کب ہم نے اس ربط کو فراموش کر دیااور یہ طے پایا کہ نظریات کسی بچے کی مسکراہٹ ، تتلی کے رنگوں اور پھولوں کی خوشبو سے زیادہ اہم ہیں اور نظریات کے لیے کسی انسان کی جان لی جا سکتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے انسانوں کو پہلی دفعہ Objectify کیا۔ چاہے وہ ریاست ہو یا سیاست، مذہب ہو یا فرقہ، ہر ایک کے لیے اس ربط کو توڑنا جائز قرار پایا۔ کسی قاتل نے یہ نہ سوچا کہ مقتول کون ہے؟ کیا سوچتا ہے؟ اسکے گھر کوئی آنکھ اس کا انتظار کرتی ہو گی۔ وہ رشتے وہ ناتے جو زندگی کی تعریف کا حصہ ہیں، اس کے بھی تو ہوں گے۔ کیا یہ دست خنجر وہ سب جو اس کے پاس ہے یا مستقبل میں آئے گا اس سے چھین نہ لے گا؟ کیا مجھے اس ڈور کو کاٹ دینے کا حق ہے؟

لیکن نظریہ سب سے پہلے یہ کام کرتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو یوں پیش کرتا ہے کہ جیسے وہ انسان نہیں کوئی انسانوں سے مختلف مخلوق ہیں۔ رشتوں، جذبات ، احساسات سے عاری۔ جنہیں کرۂ ارض پہ سانس لینے کا حق نہیں۔ ان کا زندگی کی کہانی کے کسی کردارسے کوئی تعلق نہیں ، وہ کسی منظرنامے کا حصہ نہیں۔شیکسپئیر کے ڈراما مرچنٹ آف وینس میں جب شائی لاک کو شہر کے عیسائی محض یہودی ہونے کی وجہ سے طعنہ و تشیع کا نشانہ بناتے ہیں تو وہ بہت خوبصورت الفاظ میں ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ یہودی ہونے سے پہلے ایک انسان ہے اور کسی طرح سے بھی ان سے مختلف نہیں۔

Hath not a Jew eyes? Hath not a Jew hands, organs, dimensions, senses, affections, passions? Fed with the same food, hurt with the same weapons, subject to the same diseases, healed by the same means, warmed and cooled by the same winter and summer as a Christian is? If you prick us, do we not bleed? If you tickle us, do we not laugh? If you poison us, do we not die?

نفسیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کسی انسان کو انسان سمجھ کے ، اس کے تمام انسانی ، سماجی اور دوسرے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے، مارنا مشکل کام ہے۔ لوگوں کو اس کام پہ آمادہ کرنے کے لیے ان کی ذہن سازی اس طرح سے کی جاتی ہے کہ وہ مخالفین کو Subhuman یعنی انسان سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی موت کو کسی کیڑے کی موت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس ذہن سازی کے نتیجہ میں قتل کی ہولناکی نہ صرف کم ہو جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں وہ ایک پر لطف تجربے میں بدل جا تا ہے۔ یہ Objectification نہ صرف ایک پرتشدد رویے کو جنم دیتی ہے اور انسانوں کے قتل کو محض ایک کھیل میں تبدیل کر دیتی ہے بلکہ ساتھ ہی یہ قاتل سے بھی اس کی انسانیت چھین لیتی ہے اور اسے Inhuman بنا دیتی ہے۔
شیکسپئیر کا کردار ہیملٹ انسان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے:

What a piece of work is a man! How noble in reason, how infinite in faculty! In form and moving how express and admirable! In action how like an angel, in apprehension how like a god! The beauty of the world. The paragon of animals.

لیکن اگر یہی انسان مسکراہٹوں، رنگوں ، خوابوں کی نفی کر کے اپنے جیسے ہی انسانوں کو Subhuman میں بدل کر خود Inhuman بن جائے تو ہیملٹ کے ہی الفاظ میں:

And yet, to me, what is this quintessence of dust?

شہریار خان، اٹک
Latest posts by شہریار خان، اٹک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).