جہانگیر ترین اور ہمارے گاؤں کی پہلی بس


ہمارے گاؤں سے شیخوپورہ جانے والی سب سے پہلی بس فجر کی اذانوں کے وقت نکلتی تھی۔ ڈرائیور اڈے میں کھڑی بس سے انتہائی اونچا ہارن بجانا شروع کر دیتا تھا اور گھر چار پائیوں پر لیٹے لوگوں کو پتا چل جاتا تھا کہ پہلی بس نکلنے والی ہے۔

بس کے ڈرائیور کو ایک ایک اسٹاپ کا پتا ہوتا تھا کہ یہاں سے بس میں کون بیٹھے گا۔ صبح صبح سب سے زیادہ سبزی اور پھل فروش ہی چڑھتے تھے تاکہ شیخوپورہ کی سبزی منڈی سے سامان لا کر بیچ سکیں۔

ایک دن مجھے لاہور جلد سے جلد پہنچنا تھا اور میں نے بھی وہی بس پکڑ لی۔ لیکن ڈرائیور حسب معمول کچھوئے کی رفتار سے بس چلا رہا تھا تا کہ زیادہ سے زیادہ سواریاں جمع ہو سکیں۔
میں نے تنگ آ کر ایک دو مرتبہ ڈرائیور سے کہا کہ پا جی خدا کا خوف کرو، اب اس کو کچھ دیر کے لیے چلنے بھی دو! وہ حسب معمول ایک ہی جواب دیتا کہ بابو صحیح تو جا رہے ہیں، بس گاڑی بھرتی ہے تو چلتے ہیں۔

ہم نوشہرہ ورکاں سے نکل کر ابھی تیسرے یا چوتھے گاؤں تک ہی پہنچے تھے کہ وہ گاڑی بند کر کے ایک گاؤں سے آنے والے کچے راستے کی طرف دیکھنا شروع ہو گیا۔
میں دوبارہ اس کے پاس گیا کہ پا جی ادھر تو دور دور تک کوئی بندہ یا بندی نظر نہیں آ رہی، یہاں گاڑی کیوں کھڑی کی ہے؟

اس نے مسکراتے ہوئے دور ایک کچے گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہاں ایک بندہ غسل خانے میں نہا رہا ہے اور اس نے بھی جانا ہے۔
میں نے کہا کہ پا جی توانوں کیویں پتا لگ گیا کہ اس نے ویں جانا ایں۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا، ”اس نے غسل خانے سے پرنا (کندھے پر رکھنے والا کپڑا) ہلایا ہے، وہ ضرور جائے گا۔ ‘‘
پھر یہی ہوا، پانچ منٹ بعد وہ واقعی بھاگا بھاگا آیا اور گیلے کپڑوں، گیلے بالوں اور گیلے جسم کے ساتھ ہی بس میں بیٹھ گیا۔

آج کل جہانگیر ترین صاحب کی تصاویر بھی دیکھ کر مجھے وہی بس والا ڈرائیور یاد آ جاتا ہے۔ جہاں بھی کوئی آزاد امیدوار غسل خانے سے پرنا ہلاتا ہے، جہانگیر ترین صاحب وہیں اپنے جہاز کی بریک لگا لیتے ہیں۔ بضد ہیں گاڑی بھرے گی تو آگے چلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).