دیہاڑی


میمونہ کو دور سے دیکھنے والوں کی پہلی نظر اس کے غیرمعمولی ابھرے ہوئے سینے پر پڑتی۔ اس کا سینہ تھا ہی ایسا جو بڑے سے بڑے درویش صفت آدمی کا بھی ایمان ڈانوا ڈول کردیتا۔ محلے کے مردوں کی گفتگو کا مرکز اکثر اس کے جسم کا یہی حصہ ہوتا۔ وہ تصور ہی تصور میں میمونہ کے سینے کو بھنبھوڑتے، نوچتے کھسوٹتے اور ان سے لپٹ کر سوجاتے اور خواب سے بے دار ہونے کے بعد فقط آہیں بھرتے۔ میمونہ ہر چند کہ اپنے جسم کو سیاہ چادر سے ڈھانپ کر باہر نکلتی لیکن جرسی کی چادر میں اس کا سینہ چُھپنے کے بجائے اور تن جاتا، جسے دیکھ کر مردوں کی رال ٹپکنے لگتی۔ میمونہ کو اپنے غیرمعمولی ابھرے ہوئے سینے اور ان پر مردوں کی گڑی ہوئی نظروں کا ادراک سخت کوفت میں مبتلا رکھتا، لیکن اس کے پاس کوئی حل نہ تھا۔

وہ ہوس بھری مردانہ نظروں سے اپنے نسوانی حسن کے بچاؤ کے طریقے سوچتی رہتی۔ کبھی باہر نکلتے ہوئے وہ اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کو ڈھال بنا کر اپنا سینہ چھپاتی اور کبھی خریدے ہوئے سامان کے تھیلے اس طرح اپنے دونوں بازوؤں میں تھام لیتی کہ اس کے جسم کا اوپری حصہ تھیلے کی اوٹ میں چھپ جائے۔ لیکن اکثر اس کی یہ سب کوششیں رائیگاں چلی جاتیں اور وہ ہوس بھری نظروں کو گریبان کے اندر گڑتا ہوا محسوس کرتی۔ مردوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کریہہ جملے اس کے کانوں میں سیسہ بن کر اتر تے۔ کوئی سرگوشی میں اس کی چھاتیوں کا سائز پوچھتا تو کوئی انھیں بڑی کرنے کے طریقے پوچھتا۔ کوئی اس کو دعوتِ گناہ دیتا، کوئی ہتھیلیاں اپنے جسم کے کسی حصے پر مل کر واہیات اشارے کرتا اور کوئی اس کے سینے پر نظریں گاڑ کر ہونٹ دانتوں میں دبا لیتا۔

اس نسوانی حسن کے علاوہ میمونہ کے جسم میں کوئی کشش نہ تھی۔ سوکھی کلائیاں، پچکے ہوئے گال، انگلیوں کے گٹوں پر پڑے سیاہ نشان اور اندر کو دھنسی آنکھیں اس کی سسکتی زندگی کا حقیقی آئینہ تھیں۔ قدرت نے سارا حُسن سینے میں انڈیل کر میمونہ کے ساتھ بڑی زیادتی کردی تھی۔ یوں اس کی مشکل زندگی مزید مشکل ہوگئی۔ محلے کے مرد تو اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پاگل رہتے مگر عورتیں دور دور اور اُکھڑی رہتیں۔ ان کی بس یہی کوشش ہوتی کہ کسی انتہائی مجبوری کے سوا میمونہ ان کے گھروں کا رخ نہ کرے۔ مبادا مردوں کا ایمان خراب ہو اور انہیں اپنی بیویوں کے جسموں کبھی سکون ہی نہ مل سکے۔

میمونہ کے گھر میں کل تین نفوس تھے۔ اس کا خاوند فرید مستری، وہ خود اور ان کا ڈیڑھ سالہ بچہ۔ یوں تو فرید ایک ماہر مستری تھا، لیکن اس کا پسندیدہ شغل موبائل میں عریاں فلمیں دیکھنا تھا۔ اس چسکے میں وہ بس کچھ دن دل پر پتھر رکھ کر دیہاڑی لگاتا اور پھر ایک ایک دھیلا نمٹ جانے تک گھر میں بے کاری کاٹتا۔ کپڑے لتے سے لے کر معمولی معمولی گھر کے خرچوں کے لیے بھی میمونہ تنگ رہتی۔ اکثر محلے والوں سے ادھار مانگ گزارہ کرتی اور فرید کی دیہاڑی کے پیسے آتے ہی اس میں سے اچھی خاصی رقم سے ادھار چکا دیتی۔ یوں میمونہ کے لیے فرید کا کام پر جانا نہ جانا برابر تھا۔ اس کے آنگن میں مفلسی کا دھمال کم ہو کے نہ دیتا۔ گھر کے پورے نہ ہونے والے خرچوں اور بچے کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے جب حد سے زیادہ پریشان ہوتی تو موقع تلاش کرکے فرید کو کام پر جانے کے لیے اکساتی لیکن فرید ”میں نہ مانوں‘ کی ہِٹ پر قائم اور ننگی فلموں میں غرق رہتا۔

فرید کا یہ شوق پہلے محلے کی ایک تنگ وتاریک گلی کے ایک خستہ حال کمرے پر مشتمل ’سنیما‘ میں پورا ہوتا تھا، جہاں ہر تماشائی سے پچاس روپے لے کر فلم کے نام پر عریاں اور دہکتے منظر دکھائے جاتے۔ پھر ایک دن وہاں پڑنے والا پولیس کا چھاپا فرید کی زندگی کو بے رنگ کرگیا۔ ’ابے ایسا فون لے لے، پھر مزے ہی مزے‘ اس کے دوست جبار نے جب اینڈرائیڈ فون پر اس کو کھوئے ہوئے نظارے دکھائے تو اس کی بجھی ہوئی آنکھیں سلگ اُٹھیں۔ ’کتنے کا ہے‘، قیمت سُن کر اس کے لاوا سے ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ مگر شوق تو کسی بھی مول پورا کرنا تھا۔ اور اگلے دن ہی میمونہ کی مزید بُرے دنوں کے لیے بچا کر رکھی جانے والی سونے کی بالیاں گھر سے غائب ہوگئیں۔

اب فرید تھا اور اس کے فون کی اسکرین پر ابھرتی چمکتی برہنہ تصویریں۔ یوں ہر نیا دن مزید ابتر حالات کا نیوتا لے کر طلوع ہوتا۔ فرید کے گھر میں رہنے سے صرف آمدنی ہی متاثر نہ ہوتی بلکہ میمونہ کی اپنی جان الگ عذاب میں آجاتی۔ میمونہ کے سینے کا وہ گداز، جس کا دیوانہ پورا محلہ تھا فرید کو اس سے عرق کشید کرنے میں ذرا دل چسپی نہ تھی۔ کمال بے نیازی برتنے کے باوجود، اس کے سینے کے خد و خال اور خوب صورتی سے بہرحال وہ واقف تھا۔ سو وہ جتنے دن گھر میں گزارتا میمونہ کو کڑی نظروں میں رکھتا۔

وہ چادر کے بغیر صرف دوپٹے سے، اگر دروازے پر تو کیا کھڑکی کے پاس بھی چلی جاتی تو فرید اسے بالوں سے کھینچتا ہوا لاتا اور چارپائی پر پٹخ کر اس کی خوب گت بناتا۔ ‘سالی حرام زادی، یوں چوکھٹے میں کھڑی میری عزت نیلام کرتی ہے۔ نیچ ذات! ابھی میں مرا نہیں، زندہ ہوں۔ میری عزت کا ناس کیا تو ٹانگیں جانگھوں سے الگ کردوں گا! سالی! ’ میمونہ آئے دن یہ عذاب سہتی۔ رِستے زخموں پر تو کوئی پھایا نہ رکھ پاتی البتہ چادر کو اپنے سینے پر اور پھیلا کر ڈال لیتی۔ لیکن اس کا سب سے بڑا دشمن تو یہ سینہ ہی تھا جو ہر طرف سے امڈ امڈ کر قمیص سے نکلا جاتا تھا۔

اب کی بار فرید کی بے کاری کے دن کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئے۔ آہستہ آہستہ گھر کا راشن ختم ہوا۔ پھر محلے والوں نے بھی ادھار دینے سے ہاتھ جوڑ دیے۔ میمونہ کام پر جانے کے لیے فرید کے پیچھے پڑی تو اس نے لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خوب تواضع کی۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ ڈیرھ سالہ ننھے کی بھوک جب میمونہ کے سینے سے چمٹے رہنے پر بھی نہ بجھی تو اس نے رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا۔ گلی محلے کے مردوں کے دلوں میں ارمان جگاتا یہ سینہ بھرپور ہوکر بھی خود اس کے بچے کے لیے خالی تھا۔

آخر اگلی صبح فرید کو بادل نخواستہ کام پر جانا ہی پڑا۔ کیوں نہ جاتا؟ بھوک تو اب اس کی آنتوں میں بھی بَل ڈال رہی تھی۔ اپنے لیے ہی سہی، ہاتھ پاؤں چلائے بنا اب کوئی چارہ نہ تھا۔ شام کے جھٹپٹے میں واپس گھر کو لوٹا بھی تو لٹکے ہوئے منہہ اور خالی ہاتھوں کے ساتھ۔ تقدیر نے شاید اب اس پر مہربان ہونے سے انکار کردیا تھا۔ میمونہ بھوک سے نڈھال ایک کونے میں بیٹھی تھی اور بچہ اس کی چھاتیاں نچوڑ نچوڑ کر روتا ہوا سو چکا تھا۔ اس نے بچے کو میمونہ کی گود سے لیا اور اسے ایک بار پھر پڑوسیوں سے ادھار مانگنے کے لیے جانے پر راضی کیا۔ میمونہ نے چارپائی کے نیچے سے چپلیں سرکا کر پیروں میں ڈالیں اور خود کو بہ مشکل گھسیٹ کر روانہ ہوگئی لیکن کچھ ہی دیر میں خالی ہاتھ واپس آگئی۔

کمرے کی زرد روشنی میں دونوں کے چہرے تاریک پڑے تھے۔ چاروں طرف سناٹا ہول رہا تھا۔ میمونہ دل ہی دل میں فرید کو اور فرید نصیب کو کوس رہا تھا۔ خالی پیٹ کروٹیں بدلتے بدلتے ان دونوں نے رات کے اندھیرے سے دن کے اجالے میں پاؤں پسار دیے۔

‘بس اب تو ایک ہی حل ہے۔ یوں کر، اکرم سیٹھ کے گھر چلی جا۔ وہ بڑا نیک دل اور اللہ والا ہے۔ اس کی بیوی بھی بڑے دل والی ہے۔ وہ دونوں ہماری کچھ نہ کچھ ضرور مدد کر دیں گے۔ جیسے ہی میرا کام لگے گا میں سب سے پہلے ان کا ادھار واپس کروں گا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ واپسی کا تقاضا ہی نہ کریں، ان کے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ بس تھوڑی ہمت کرلے میمونہ۔ دیکھ مُنّے کی خاطر چلی جا۔ ‘

میمونہ نے روتے ہوئے منے کو فرید کی گود میں پٹخا اور میکانکی انداز میں گھر کے دروازے کی طرف بڑھی۔ ‘ایسے کیسے چلی؟ چادر لپیٹ سئی سے۔ ایک وقت کی روٹی نہ ملی تو ہوش ہی گنوا بیٹھی ہے سالی۔ ’ فرید پیچھے سے گرجا۔ میمونہ نے پلٹ کر اُسے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور سیاہ چادر سے جسم کا اوپری حصہ ڈھانپتی ہوئی گھر کا دروازہ پار کرگئی۔

چھوٹی بڑی کئی گلیوں سے گزرتی ہوئی میمونہ چوڑی سڑک پر آگئی۔ دائیں جانب سب سے آخری والا مکان سیٹھ اکرم کا تھا۔ گھر میں سیٹھ کے سوا کوئی موجود نہ تھا۔ اس کے بیوی بچے چھٹیاں گزارنے شہر گئے ہوئے تھے۔ وہ کمرے میں بچھے قیمتی سنہرے قالین پر سیٹھ اکرم کے عین سامنے سر جھکائے بیٹھی اپنے آنے کا مقصد بتا رہی تھی۔ سیٹھ کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سیٹھ کی نظریں اپنے سینے میں گڑی ہوئی پائیں۔ سیٹھ بھی اگر گھاٹے کا سودا کرنے لگے تو کس بات کا سیٹھ؟ یوں چند لمحوں کی خاموشی میں انتہائی رازداری سے سودا طے ہوگیا۔

بھوک مٹنے کے آسرے نے سینے کی جلن بڑھا دی تھی۔ ہاتھوں میں کئی سرخ نوٹ دبائے بستر پر پڑی وہ کتنی ہی دیر تک اپنی سانسوں پر قابو پاتی رہی۔ اور پھر اس نئے سودے کے نفع نقصان کا حساب کرتی ہوئی گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ گھر پہنچ کر اس نے پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھولا۔ فرید تیزی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا۔ منا فرش پر پڑا بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ میمونہ نے کالی جرسی کی چادر اتار کر فرید کے منہہ پر ماری اور منے کو بغل میں دبا کر گھر چھوڑ دیا۔
جب وہ خود دیہاڑی لگاسکتی تھی تو اپنے بچے کے ساتھ فاقے کاہے کو کاٹتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).