چودھواں خواب نامہ۔۔۔ محبت۔جنس۔شادی



31 مئی 2018
درویش رابعہ کی خدمت میں دوستانہ سلام پیش کرتا ہے
درویش نے رابعہ کا خط پڑھا تو کافی دیر تک مسکراتا رہا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے رابعہ انسانی رشتوں کے گہرے پانیوں میں اتر گئی ہے اور اس گہرائی سے محبت‘پیار‘ جنس اور دوستی کے ایسے موتی اٹھا لائی ہے جن کو جاننا‘ پہچاننا اور پرکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں الفاظ انسانی جذبوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ جو ٹھہرا ہوا سا پانی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی تہہ میں عجب روانی ہے
ایک چاہت جو عارضی سی لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی تاثیر جاودانی ہے
درویش نے اپنی پیشہ ورانہ اور سماجی زندگی میں جن جوڑوں سے جنس کے موضوع پر تبادلہِ خیال کیا ہے انہیں وہ تین گروہوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ان کے لیے اس نے انگریزی کے3RSکا انتخاب کیا ہے۔
پہلا R…Reproduction کا ہے۔ یہ وہ روایتی جوڑے ہیں جو ماں باپ بننا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ جنس کو بچے پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دوسرا R…Relationship کا ہے۔ یہ وہ جوڑے ہیں جو بچے پیدا کرنا نہیں چاہتے صرف محبت کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے جنسی تعلقات ان کی محبت کے آئینہ دار ہیں۔
تیسرا R…Recreation کا ہے۔ یہ مغرب کے وہ نوجوان جوڑے ہیں جن کے لیے جنس تفریح کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کے لیے سیکس کوئی نئی فلم یا ہمبرگر کھانے کی طرح ہے۔
درویش ایسے جوڑوں سے بھی ملا ہے جو زندگی کے مختلف ادوار میں جنس کے مختلف تجربات کرتے رہے ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں ان کے لیے محبت جنس اور دوستی کی اقدار اور ترجیحات بدلتی رہی ہیں۔ درویش کی نگاہ میں دو عاقل و بالغ انسانوں کو‘چاہے وہ ایک مرد اور ایک عورت ہو‘ دو مرد ہوں یا دو عورتیں‘ پورا حق ہے کہ وہ باہمی رضامندی سے کس طرح کے رومانوی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
درویش کا ذاتی سفر کافی پیچیدہ اور گھمبیر ہے جنہیں چند الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ درویش چونکہ مشرق میں پلا بڑھا تھا اس لیے اس کی پرورش بھی مذہب اور اخلاقیات کے سائے میں ہوئی تھی لیکن جب وہ مغرب میں آ بسا تو اس نے انسانی تعلقات کو اخلاقیات کی بجائے نفسیات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ درویش نے پوری کوشش کی کہ وہ عورتوں کی عزت اور احترام کرے۔ اس کی کئی خواتین دوست ہیں جو ساری عمر اس کی دوست رہیں۔ چند ماہ پیشتر اسے ایک پرانی دوست کا مسیج آیا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ درویش نے اسے فون کیا تو پرانی دوست نے کہا کہ اسے کینسر ہو گیا ہے اور اس دنیا میں چند ماہ کی مہمان ہے اور وہ مرنے سے پہلے جن لوگوں سے ملنا چاہتی ہے اس میں درویش بھی شامل ہے۔ درویش اس سے ملا تو اسے بہت خوشی ہوئی کہ اس دوست نے اسے یاد رکھا تھا۔ وہ درویش سے کئی سالوں کے بعد بھی بڑی اپنائیت سے ملی۔
درویش اپنے پیشہ ورانہ اور رومانوی تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مرد اور عورت کی نفسیات بہت مختلف ہے۔ بہت سی عورتیں محبت کی گلی سے ہو کر جنس تک جب کہ بہت سے مرد جنس کی گلی سے ہو کر محبت تک پہنچتے ہیں۔
درویش جب مغرب میں آ بسا تو اس نے دیکھا کہ مغرب نے ڈیٹنگ کو قبول کر لیا ہے۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے جوان بچے شادی سے پہلے ایک کے بعد ایک کئی لوگوں کو مل لیں تا کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کو بہتر طور پر جانیں اور شریکِ حیات چننے کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کریں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے جوان بچے جس پہلے انسان کو ملیں اسی سے شادی کر لیں۔ مشرق میں بسنے والے ابھی تک فرازؔ کے اس مصرعے پر عمل کرتے ہیں
؎ ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فرازؔ
چونکہ مشرق نے ڈیٹنگ کو قبول نہیں کیا اس لیے بہت سے مشرق کے باسی رومانوی تعلقات کی قوسِ قزح کے مختلف رنگوں سے ناواقف رہتے ہیں۔ مشرق میں محبت‘ جنس‘ شادی اور بچے ایک ہی پیکیج کا حصہ ہیں جبکہ مغرب میں لوگ علیحدہ علیحدہ بھی ان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
درویش کو مغرب میں کئی
ایسے محبت کرنے والے جوڑے ملے جنہوں نے شادی نہیں کی
ایسے شادی شدہ جوڑے ملے جنہوں نے بچے پیدا نہیں کئے
ایسی عورتیں ملیں جو ماں بنیں لیکن شادی نہیں کی۔
ایسے مرد اور عورتیں ملے جنہوں نے طلاق کے بعد دوسری شادی کی اور ان کی دوسری شادی پہلی شادی سے زیادہ خوشحال تھی۔
درویش کے لیے یہ خوشگوار حیرت کی بات رہی ہے کہ لوگوں کے فیصلوں کا دوسرے لوگ احترام کرتے ہیں اور اکثر لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ’اور لوگ کیا کہیں گے‘ لوگ اپنی عقل سمجھ بوجھ اور ضمیر کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں اور پھر ان کے نتائج کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل کا رشتہ داروں یا خدا کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔
درویش کو احساس ہو رہا ہے کہ طویل خط لکھنے کے باوجود وہ اپنے موقف کی پوری طرح وضاحت نہیں کر پایا لیکن بہر حال یہ اس کی پہلی کوشش ہے۔
درویش کے من کے آنگن میں جوں جوں زندگی کی شام اتر رہی ہے اسے زندگی کے رشتوں کے عارضی ہونے کا احساس ہو رہا ہے۔ اسی لیے اس نے لکھا تھا
؎ کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا۔۔۔۔اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں
؎ آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے
رابعہ کا سات سمندر پار درویش دوست اب اجازت چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).