رقومات شرعیہ سے بنے مدارس موروثی کیسے؟


ذرا دیر کو فرض کر لیجیے کہ زید روزانہ شام کو گاؤں سے باہر واقع مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہے۔ واپس آتے آتے اندھیرا پھیل جاتا ہے اس لئے اس نے بازار سے پچاس روپئے کی ایک ٹارچ خریدی۔ اب وہ ایک ٹارچ کا مالک ہے جسے وہ چاہے تو خود استعمال کرے یا پھر چاہے تو کسی اور کو دے دے۔ اگر زید ٹارچ کسی کو دینے لگے تو یقینی طور پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ اب ذرا ایک دوسری صورت فرض کیجئے کہ زید کے ساتھ گاؤں کے کچھ اور افراد بھی مسجد جاتے ہیں اور ان سب کو اندھیرے کی وجہ سے ٹارچ خریدنے کا خیال آیا۔ سب نے مل کر پچاس روپئے جمعکیے اور ٹارچ خرید لی گئی، جس کو زید کے پاس رکھوا دیا گیا اور اس کی ذمہ داری ٹھہری کہ شام میں جب سب مسجد جانے لگیں تو زید ٹارچ لے لیا کرے۔

اب ایک دن اچانک سب کو پتہ چلے کہ زید وہ ٹارچ جو کہ اجتماعی چندے سے خریدی گئی تھی اسے اپنے کسی عزیز کو تحفہ میں دے رہا ہے تو کیا سب ویسے ہی خاموش رہیں گے جیسے پہلی صورت میں تھے؟ یقینا کوئی خاموش نہیں رہے گا اور سب اعتراض کریں گے کہ اجتماعی چندے سے خریدی گئی شئے کوئی ایک شخص کیسے کسی کو دے سکتا ہے؟ اس مختصر تمہید نے کچھ اصول قائم کر دیے پہلا یہ کہ ذاتی ملکیت والی شئے کو ہی انسان ذاتی تصرف اور کسی کو دے دینے کا حق رکھتا ہے، دوسرا یہ کہ اجتماعی ملکیت کسی فرد کے زیر انتظام تو ہو سکتی ہے اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی اور تیسرا یہ کہ اجتماعی ملکیت والی شئے کا تصرف یا اسے کسی کو دینے کا فیصلہ بھی اجتماعی ہی ہوگا نہ کہ انفرادی۔

اب تک کی باتیں ذہن میں رکھئے اور ذرا سوچ کر بتائیے کہ اپنے آس پاس کے جتنے مدارس کو آپ جانتے ہیں ان میں مہتمم، ناظم اور پرنسپل کا منصب باپ کے بعد بیٹے، سسر کے بعد داماد، چچا کے بعد بھتیجے اور ماموں کے بعد بھانجوں کو منتقل ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ مدارس ان مہتمم، ناظم، پرنسپل، رئیس، مدیر یا حضرت جی صاحبان کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟ اس مقدمہ کو مزید آسانی سے سمجھنے کے لئے ذرا اس پر بات ہو جائے کہ یہ مدارس بنتے کیسے ہیں اور چلتے کیسے ہیں؟ مدارس کی تعمیر رقومات شرعیہ اور مخیر حضرات کے ذریعہ دی جانے والی رقوم سے ہوتی ہے۔ کوئی زمین دیتا ہے، کوئی سیمنٹ کی بوریاں بھجواتا ہے، کہیں سے سریہ اور اینٹ میں مدد ملتی ہے اور کچھ لوگ دیگر اخراجات کے لئے پیسہ دیتے ہیں اس طرح ایک مدرسہ تعمیر ہوتا ہے۔

ہزار میں ایک مثال ایسی ضرور مل سکتی ہے جہاں کسی نے اپنی جیب خاص سے ایک ایک پیسہ لگاکر مدرسہ بنایا ہو لیکن چونکہ ہم یہاں استثنیٰ پر نہیں عموم پر بات کر رہے ہیں اس لئے وہی معاملہ لیں گے جو نو سو ننا نوے بار ہوتا ہے۔ جب وہ مدرسہ تیار ہوجاتا ہے تو مدرسہ بنوانے والا شخص اس کا پرنسپل، ناظم، مہتمم یا مدیر بن جاتا ہے اور طلبہ کو داخلہ دے کر تعلیمی سلسلہ چلنے لگتا ہے۔ چونکہ مدارس چلانے کے لئے مسلسل رقم درکار ہوتی ہے اس لئے مخیر حضرات کی مدد اور رقومات شرعیہ پر انحصار جاری رہتا ہے۔

جگہ جگہ سفیر چندہ جمع کرتے ہیں، رمضان میں زکوۃ، عید پر فطرہ اور بقرعید پر قربانی کی کھالیں غرض جس طرح بھی ہو مدرسہ کو روزمرہ کے اخراجات کے لئے اجتماعی امداد ملتی رہتی ہے۔ مدرسہ چلتا رہتا ہے، چندہ اور عطیات بیت المال میں آتے رہتے ہیں اور مدرسہ کے پرنسپل، مہتمم، ناظم یا مدیر اپنے حساب سے اسے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ دھیرے دھیرے وقت گزرتا ہے اور اب پرنسپل یا مہتمم صاحب بوڑھے ہو چلتے ہیں اور وہ اپنے بیٹے، بیٹا نہیں ہے تو بھتیجہ یا داماد یا بھانجے کو اپنا عہدہ سونپ دیتے ہیں۔ کرسی سونپے جانے کا یہ سلسلہ کسی بھی عام مدرسہ میں جھانکیں گے تو نظر آ ہی جائے گا۔

اب ذرا ٹھہر جائیے، ہم نے تمہید میں جو تین اصول دیکھے تھے ان پر اس معاملہ کو تول کر دیکھئے۔ پہلا اصول تھا کہ ذاتی ملکیت والی شئے کو ہی انسان ذاتی تصرف اور کسی کو دے دینے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں مہتمم، ناظم یا پرنسپل صاحب نے جس مدرسہ کو ابھی ابھی اپنے بیٹے، داماد، بھانجے یا بھتیجے کو سونپا ہے کیا وہ ان کی ذاتی ملکیت تھی؟ دوسرا اصول یہ تھا کہ اجتماعی ملکیت کسی فرد کے زیر انتظام تو ہو سکتی ہے اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ معلوم ہوا کہ مدرسہ چونکہ اجتماعی چندے اور عطیات سے کھڑا ہوا تھا اور اس کا روزمرہ کا خرچ چلانے کے لئے بھی ایک ایک پائی اجتماعی چندے سے ہی آئی تھی اس لئے ناظم، مہتمم یا پرنسپل صاحب اس کا انتظام سنبھالنے کا تو حق رکھتے تھے لیکن یہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ تیسرا اصول یہ تھا کہ اجتماعی ملکیت والی شئے کا تصرف یا اسے کسی کو دینے کا فیصلہ بھی اجتماعی ہی ہوگا نہ کہ انفرادی۔ مطلب یہ کہ ناظم، مہتمم یا پرنسپل صاحب اجتماعی چندے سے بننے اور چلنے والے مدرسہ کا انتظام کسی کو سونپنے کا فیصلہ انفرادی طور پر کر ہی نہیں سکتے۔

اس مرحلہ پر یہ وضاحت کر دوں کہ مخیر حضرات کے پیسے سے بننے والے اسکول اور کا لج بھی ذاتی جاگیر میں بدلتے دیکھے گئے ہیں۔ ایسے بہت سے جدید تعلیم کے ادارے ہیں جو کسی عالم دین نے قوم کے پیسے سے بنائے اور بعد میں وہ ادارے ان کے بچوں میں میراث کی طرح بٹ گئے۔ چونکہ مخیر حضرات سے مدد لے کر جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے کا رواج مدارس کے مقابلے بہت کم ہے اس لئے یہ مرض مدارس میں بہت زیادہ ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی صاحب تاویل کریں کہ اس مہتمم، پرنسپل، ناظم یا مدیر کی خدمات بھی تو دیکھو کہ اس نے کیسے لوگوں سے چندہ جمع کیا اور مدرسہ بنوا کر اسے چلاتا رہا۔

گویا چونکہ اس نے یہ کیا اس لئے اگر وہ اس مدرسہ کو اپنے بعد کسی کو سونپ رہا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ بالکل کوئی حرج نہیں ہے ہاں بس مہتمم، ناظم، پرنسپل یا مدیر صاحب اس مدرسہ پر ایک چھوٹی سا بورڈ آویزاں کرا دیں کہ یہ مدرسہ میری ذاتی ملکیت ہے جو میرے بعد میرے بیٹے یا داماد یا فلاں عزیز کو ملے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ چندے کی رسیدوں، تشہیری پمفلٹوں اور رمضان میں بٹنے والے کلینڈروں پر تو آپ دین کی خدمت اور اللہ کی راہ میں جد و جہد کی باتیں لکھیں اور اصل منشا آ خرت سنوارنے کے بجائے دنیا سدھارنا ہو۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter