شہباز کا جہاز پھر لیٹ ہو گیا


گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کمیشن آفس کے سامنے دھاندلی کے خلاف کچھ سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اور ورکرز اکھٹی ہوئے مگر تماشا نہ کرسکے۔ مسلم لیگ ن، اے این پی، ایم ایم ائے، قومی وطن پارٹی اور نیشنل پارٹی کے سیاسی لوگوں نے اس احتجاج کا حصہ بنناتھا۔ پہلے کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کمیشن آفس کے سامنے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوگا۔ دھاندلی کے نعرے پورے اسلام آباد میں گونجتے نظر آئیں گے۔ لیکن ایسا تماشا نہ ہوسکا۔ ایک معمولی سا مظاہرہ تھا جس میں لوگوں کی بہت کم تعداد موجود تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اس مظاہرے میں یوسف رضا گیلانی، شیری رحمان شریک تھی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے خواجہ آصف، راجہ ظفر الحق، احسن اقبال وغیرہ شریک ہوئے۔ ایک ہیں مولانا جو ہر روز دھاندلی کی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں پچیس جولائی کو دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ ہوا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پچیس جولائی کو جو دھاندلی ہوئی تھی وہ تمام دھاندلیوں کی ماں تھی۔ جی میں بات کر رہا ہوں مولانا فضل الرحمان کی۔ موصوف دو گھنٹے کے بعد اس مظاہرے میں شریک ہوئے۔ وہ بھی اس وقت جب معمولی سا تماشا تقریبا اختتام پزیر ہوچکا تھا۔

مسلم لیگ ن کے صدر اور دھاندلی کے خلاف آواز بلند کرنے والے شہباز شریف مظاہرے میں شریک نہ ہوئے۔ کہا گیا کہ کیونکہ موسم خراب تھا اس لئے طیارہ لیٹ ہوگیا۔ موسم کی بے ایمانی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے عظیم رہنما شہباز شریف شریک نہ ہوسکے۔ مظاہرے میں شریک نہ ہونے پر ٹوئیٹر پر شہباز شریف کے خلاف مسلم لیگ ن کے ورکرز احتجاج کرتے نظر آئے۔ کسی نے کہا وہ بزدل ہیں، کسی نے کہا وہ نوازشریف کی طرح کے شیر نہیں بلکہ صرف کاغذی شیر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے تو اس طرح کے مظاہروں میں شامل نہ ہونے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ سراج الحق پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جو ہونا تھا ہوچکا، اب اس حکومت کو ایک چانس دینا چاہیے۔ اسفند یار ولی جو سیاست کے حوالے سے دلچسپ باتیں کرتے ہیں اور بہت اچھے سیاسی خطیب بھی ہیں وہ بھی شریک نہ ہوئے۔ شہید ہارون بلور کے بیٹے دانیال ہارون البتہ مظاہرے کا حصہ تھے۔ مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ ہر کوئی اپنے اپنے نعرے لگاتا نظر آیا۔ سوال یہ ہے کہ دھاندلی کے خلاف ایسا احتجاج کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ ایسے لگا جیسے تمام لوگ یہ چاہتے تھے کہ جلدی سے یہ مظاہرہ ہوا اور پھر وہ گھر چلے جائیں اور حقیقت میں بھی ایسا ہی نظر آیا۔

یہ تمام منظر کشی کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آخر اپوزیشن چاہتی کیا ہے؟ اگر بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے تو ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کیا جائے اور بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ہو۔ لیکن عمران خان کی خوش قسمتی دیکھیں کہ اپوزیشن یہ بھی نہیں چاہتی۔ دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا ایک شیڈول جاری ہوتا ہے جیسے انیس سو ستتر کے انتخابات کے خلاف نظر آیا۔ یہاں یہ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ہارنے والے حکومت سازی میں بھی دلچسپی دیکھاتے نظر آرہے ہیں اور جو جیتے ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جاکر دھاندلی کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اگر دھاندلی کے خلاف احتجاج نہیں کرنا تو پھر کم از کم یہ اعلان کردیا جائے کہ عظیم تر قومی مفاد میں دھاندلی زدہ انتخابات کو وہ اس لئے قبول کرتے ہیں کہ کہیں غیر جمہوری قوتیں جمہوری سسٹم کو ڈی ریل نہ کردیں۔ یہ تو کیا جاسکتا ہے اور شہباز شریف ایسا اعلان کرسکتے ہیں، کب تک وہ موسم کے خراب ہونے کا بہانہ کرتے رہیں گے۔

شہباز شریف کی سیاسی سوچ سے اب سب کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ وہ جنگ کرنے والے لیڈر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ بھٹو ہیں۔ صرف بھٹو کا انداز اختیار کرنے سے کوئی بھٹو نہیں بن جاتا۔ یا حبیب جالب کی انقلابی نظمیں پڑھنے سے کچھ ہوتا ہے۔ اس کے لئے عملی جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔ لیکن بیچارے شہباز شریف ایسا بھی نہیں کرپارہے۔ یقنیا ان پر دباؤ ہوگا۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ باری ان کی بھی آنی ہے۔ وہ کچھ کر لیں انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ کاش شہباز شریف صاحب سمجھ جائیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول اور زرداری کبھی بھی اس احتجاج میں نظرنہیں آئیں گے، ایک تو پی پی پی نے پہلے سے زیادہ سیٹیں لی ہیں، دوسرا وہ جانتے ہیں کہ اگر دھاندلی کے خلاف وہ بھی نکل آئے تو پاناما تو فلم جلدی سے مکمل ہوجائے گی، ابھی تو پاناما تو فلم کی شوٹنگ کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

گزشتہ روز کے بعد سنا ہے ایک اور کانفرنس ہوگی۔ اس کانفرس کا نام دھاندلی کانفرنس ہے جو عید کے بعد اسلام آباد میں ہوگی۔ جس میں عام افراد کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سول سوسائیٹی کے لوگ بھی شریک ہوں گے۔ یقینا اس کانفرنس کا انجام بھی وہی ہوگا جو گزشتہ روز کے مظاہرے کے ساتھ ہوا تھا۔ دیکھتے ہیں عید کے بعد بڑا تماشا لگتا ہے یا نہیں، ویسے حقیقت میں بڑے تماشے کی امید نظر نہیں آرہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).