پرانی بیٹری اور نیا پاکستان


موٹر بائیک کا کام کروانا تھا سو ایک میکینک کی دکان پر پہنچا اور بتایا کہ پچھلا پہّیہ وزن پڑنے سے آواز کر رہا ہے۔ میکینک نے بتایا کہ تھوڑا سیدھا کرنا پڑے گا، ٹھیک ہو جائے گا۔ میں بیٹھ گیا جب پورا وہیل اُتار کر الگ کیا تو اس کے لیدر جو بریک لگانے میں کام آتے ہیں نکالے گئے اب استاد کا معاون بولنے لگا لیدر بدل لیں ختم ہو گئے ہیں۔ شاید میں اُس کی بات مان بھی لیتا اگر آج کل جیب کے حالات بہتر چل رہے ہوتے مگر میں نے بیزاری سے کہا بس ٹھیک ہے اسے ابھی نہیں بدلنا گزارا ہو رہا ہے۔ اُس نے بھی اصرار نہیں کیا۔

اُس دکان سے فارغ ہوا تو اب ہارن اور اشارہ کا کام کروانا تھا، ساتھ ہی الیکٹریشن بیٹھا تھا اس کے حوالے کیا۔ اُس نے بھی فٹ سے بیٹری نکال کے باہر رکھی کہنے لگا یہ تو ختم ہے۔ میں نے کہا اس کے بنا گزارا کروا دو تو ایک کیپسٹر اور اشارے کی ربڑ وغیرہ منگوا لی وہ اُس نے جھٹ سے لگا بھی دی کہ موٹر بائیک جب تک اسٹارٹ رہے گا سب چلے گا۔ میں نے نوٹ کیا کہ بیٹری اُس نے دوبارہ لگائی نہیں میرے پوچھنے پر کہنے لگا یہ بائیک کی باڈی کو خراب کر دے گی اگر لگائی تو اُسکا پانی گرے گا۔ میں نے کہا اچھا پھر شاپنگ بیگ میں ڈال دو میں دیکھو گا شاید کہیں سے ٹھیک کروا سکوں تو جواب دیا جی بالکل آپ ساتھ لے جائیں الگ سے دے دیتا ہوں۔ عموماً میں اس طرح کا روّیہ نہیں اپناتا مروّت میں بہت سی باتوں کو نظر اندازکیے دیتا ہوں لیکن آج کچھ اور مشاہدہ کرنے کے مزاج میں تھا۔

الیکٹریشن نے مزدوری ڈیڑھ سو مانگی میں نے کہا سو روپے کافی ہے تو کہنے لگا بیٹری بھی آپ لے جا رہے ہیں خراب بیٹری بھی پچاس کی بک جاتی ہے۔ خیر اس کے بعد سروس کروانے پہنچا تو وہ صاحب بھی للچائی نظروں سے بیٹری کی طرف دیکھنے لگے اور پوچھ گچھ کرنے لگے کہ یہ تو فارغ ہے اب کسی کام کی نہیں۔ میں نے سوچا کسی کام کی نہیں ہے اور کتنی زیرِ بحث ہے۔ یہ ایک مارکیٹ کی کہانی ہے پہلی دکان والا نئے لیدر ڈلوا کر پرانے رکھ کر دوبارہ فروخت کرنے کے چکر میں تھا۔ دوسرا الیکٹریشن پچاس روپے کی بیٹری ہتھیانے کی کوشش میں تھا، اور تیسرا بھی غالباً اسی کے لئے مسکرا مسکرا کر سوال و جواب کر رہا تھا۔

کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں کسی بازار میں، کسی دکان پر شاید ہی کوئی خدا ترس یا خدا سے خوف کھانے والا اللہ کا بندہ ہو جو کسی نہ کسی داؤ کے چکر میں نہ ہو۔ ہر شخص ایک دوسرے کو جائز و ناجائز طریقے سے لوٹنے کے چکر میں ہے۔ آپ سوچیں گے جائز طریقے سے لوٹنا بھلا کیا ہوا۔ کچھ لوگ جائز منافع سے دگنا تگنا زیادہ منافع رکھتے ہیں۔ میں اُسے جائز لوٹ مار کا نام دیتا ہوں۔

یہ بگاڑ ہمارے معاشرے میں سرائیت کر گیا ہے۔ اور کسی حد تک ہم اسے قبول کر چکے ہیں۔ ہم نے ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے کہ ہم ایک کرپٹ قوم ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ایسا سوچتے ہیں کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ ہم سیاستدانوں کو تو کرپٹ کہہ دیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے میں ایک اچھا تاثر دکھائی دیتا ہے کہ یہ آواز بلند کر رہا ہے مگر ہم خود کیا ہیں، ہم خود کیا کچھ نہیں کرتے۔ سارا دن ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، جھوٹ بول کر سودا بیچتے ہیں، رشوت لیتے ہیں اور شام کی نشست میں چوڑے ہو کر کہتے ہیں کہ میں اس کرپٹ وزیر اعظم کو نہیں مانتا۔

آج جب ایک ایسی پارٹی جیت گئی ہے جس کا نیا پاکستان بنانے کا وعدہ تھا تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا یہ نیا پاکستان کبھی نہیں بنے گا جب تک ہم اخلاقی طور پر اندر سے صاف نہیں ہو جاتے، اپنی جائز مزدوری یا منافع نہیں لیتے، اپنے حصے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور سب سے بڑھ کر بطور پاکستانی اپنے فرائض نہیں نبھاتے۔ ہم سڑک پر چلتے ہوئے بنا پیچھے دیکھے مڑ جاتے ہیں اور اس حادثے سے کسی کی جان چلی جاتی ہے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہم راستہ ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر مسلسل ہارن بجاتے گزرتے ہیں کوئی اس ہارن کے مسلسل شور کی آلودگی سے چاہے پاگل ہو رہا ہو ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہم سڑک کے کنارے یا شہر میں کہیں پتنگ اُڑانے سے لطف اندوز ہورہے ہوں ڈور کٹنے سے کسی کے گھر کا چراغ بجھ جائے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔

ایک طویل قطار کو چھوڑ کر واقف سے اپنا کام نکال لیتے ہیں اور اُس قطار میں کھڑا ایک بھی شخص اس زیادتی کی وجہ سے ذہنی مریض بن جائے فرق نہیں پڑتا۔ پرچہ آوٹ کروا کر اپنے بچے کو ٹاپ کروا لیں اور متاثرین میں کوئی دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ روز آپ کے گھر نت نئے کھانے بنتے ہوں اور ہمسایہ بھوک سے مر جائے کیا فرق پڑتا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یاد رکھیں یہ بے حسی اگر اسی طرح رہی تو نیا پاکستان کسی کام کا نہیں ہوگا نئے پاکستان کو قوم بھی نئی چاہیے۔

تبدیلی اپنے اندر سے شروع کریں خود سے پہلا قدم اُٹھائیں۔ ٹیکس ادا کریں جو چیزیں خریدیں اس کی رسید لیں حکومت کو نقصان نہ پہنچائیں علاوہ ازیں اپنا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہاں غلط ہیں خود کو درست کریں۔ ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال کریں۔ اپنے نبی ص سے محبت کا اظہار ایک دوسرے کو معاف کرکے کریں۔ صرف اور صرف اپنے فرائض پورے کریں۔ کچرا پھینکے کو اگر کچرے کا ڈبہ نہ ملے تو جتنا چل کر جا سکتے ہیں جائیں کچرا، کچرے کے ڈبے میں ہی ڈالیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں ایک متحد قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کل میں بل جمع کروانے کی غرض سے ایک بنک گیا تو میرا ایک پرانا شاگرد وہاں ڈیوٹی پر موجود تھا۔ طویل قطار کی وجہ سے اُس نے بارہا کہا سر میں جمع کروا دیتا ہوں لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں خود جمع کرواؤں گا۔ میں نے نئے پاکستان کے لئے پھر سے ایک قوم بننے کا آغاز کردیا ہے۔ اُمیدِ ہے آپ بھی اس جدوجہد میں میرا ساتھ دیں گے۔ پاکستان زندہ آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).