پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کی ڈی پی او کے عہدے پر تقرری


کسی بھی قوم کی سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی خواتین کی شرکت کے بغیر ناگزیر ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اپنے ممالک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہاں پسماندہ معاشرے میں بھی ان کا درخشاں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اگرچہ انہیں اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے حالات سازگار میسر نہیں رہے پھر بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔

عام طور پہ پسماندہ معاشروں میں خواتین کی سیاسی، سماجی اور اور معاشرتی عمل میں شرکت کو کسی بھی سطح پر سراہا نہیں جاتا اور ان کی ذہنی استعداد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ خواتین سے اہم معاملات میں مشورہ لینا تو درکنار یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی راز سنبھال نہیں سکتیں۔

لیکن اسلامی تاریخ ان تمام باتوں کی نفی کرتی ہے۔ جب پیغمبر رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی ہوئی تو ساری کیفیت ایک خاتون ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے بیان کی تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی۔ فتح الباری میں بیان کیا جاتا ہے کہ ’حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ مبارک ہو اور آپ کو بشارت ہو خدا کی قسم اللہ تعالی آپ کے ساتھ سوائے خیر اور بھلائی کے اور کچھ نہ کرے گا جو منصب اللہ کی جانب سے آپ کے پاس آیا ہے اس کو قبول کیجئے وہ بلا شبہ حق ہے اور پھر کہتی ہوں کہ آپ کو بشارت ہو آپ یقینا اللہ کے رسول برحق ہیں‘۔

دوسرا واقعہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام غار ثور کے دوران حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا نے اہم ترین راز کی حفاظت کی اور مشکل حالات میں بھی آپ کی وہاں موجودگی کاکسی سے ذکر نہ کیا۔

تحریک پاکستان کے دوران مادرملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم عطیہ عنایت اللہ، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم سلمی تصدق حسین اور دیگرخواتین نے نمایاں کردار ادا کیا۔ میدان سیاست میں پاکستانی خواتین کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جس طرح ان کی گرتی پڑتی سیاسی جماعت کو سہارا دیا اور دور آمریت میں جہد مسلسل سے جس طرح اپنے والد کے نظریات کی آبیاری کی وہ قابل رشک ہے۔ سیاست میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور شیریں مزاری، سفارتکاری میں حنا ربانی کھر، ملیحہ لودھی، بینکاری میں شمشاد اختر اور ذرائع ابلاغ میں بہت سی خواتین صحافیوں کی خدمات کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جا رہا ہے۔

صنف نازک کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فورسز کے لیے موزوں نہیں لیکن خواتین نے اپنے فولادی عزائم، غیر متزلزل ارادوں اورجذبوں کی لگن سے اس خیال کو باطل ثابت کیا ہے۔ ایسی ہی باہمت خواتین میں سے ایک مثال حال ہی میں ڈی پی او بہاولنگر تعینات ہونے والی خاتون پولیس آفیسر محترمہ عمارہ اطہر ہیں۔ یوں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب پولیس نے ایک خاتون کو بطور ڈی پی او تعینات کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے۔

عمارہ اطہر نے سی ایس ایس کا امتحان دو ہزار سات میں پاس کرکے بطور ASP بھلوال اپنی سروس کا آغاز کیا۔ DPO تعینات ہونے سے پہلے بطور ایس پی انویسٹی گیشن ماڈل ٹاؤن اور ایس پی ملتان خدمات سر انجام دیں۔ جس معاشرے میں ملازمت تو درکنار خواتین کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہو وہاں پولیس جیسے مشکل شعبے میں ایک خاتون کا اپنے عزم و ہمت، فرض شناسی اور پیشہ ورانہ قابلیت کی بنیاد پر ضلعی پولیس کا سربراہ بننا دیگر تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے اور روشن پاکستان کی جانب ایک اور قدم کا اضافہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ذرائع ابلاغ میں میں ایسی درخشندہ مثالوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ جو خواتین معاشرتی روایات اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے پولیس جیسے شعبے میں آنے سے ہچکچا رہی ہیں ان کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے، انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا برابر موقع دیا جائے اور انہیں یہ منوانے کی مکمل آزادی ہونی چاہئیے کہ وہ زندگی کی دوڈ میں کسی طور پر بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).