بدقسمت ناگاساکی: ’جب مجھے ہوش آیا تو میرے بائیں بازو کی جلد کندھے سے لے کر انگلیوں کی پوروں تک کسی چیتھڑے کی طرح لٹک رہی تھی‘


ایٹم بم

1945 میں ایک عام جاپانی کی زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی۔ انڈے، دودھ، چائے اور کافی دکانوں سے غائب ہو گئے تھے۔ سبزیاں سونے کے بھاؤ بکتی تھیں اور پیٹرول عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گیا تھا۔

سڑکوں پر نجی گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صرف فوجی ٹرک نظر آتے تھے یا پھر پیدل یا سائیکل سوار شہری۔

چھ اگست 1945 کو صبح سویرے جاپانی ریڈاروں نے دیکھا کہ چند امریکی جہاز جنوب کی طرف سے اڑتے ہوئے آ رہے ہیں۔ سائرن بجنا شروع ہو گئے، ریڈیو نشریات بند ہو گئیں۔

اسی بارے میں

ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کیسے ہوا؟

ہیروشیما پر گرنے والا ایٹم بم لےجانے والا بحری جہاز مل گیا

امریکہ آخر کتنا بُرا ہے؟

اس وقت پیٹرول کی اس قدر قلت تھی کہ ان جہازوں کو روکنے کے لیے جاپانی جہاز اڑ نہیں سکے۔ آٹھ بجے ریڈیو پروگرام دوبارہ شروع کر دیے گئے۔

اینولا گے

اینولا گے جس نے ہیروشیما پر ’لٹل بوائے‘ گرایا

آٹھ بج کر نو منٹ پر امریکی فضائیہ کے کرنل پال ٹبیٹس بی29 طیارے کے انٹرکام سے اپنے ہوابازوں سے مخاطب ہوئے: ‘اپنے گاگلز ماتھے پر رکھ لیں۔ جیسے ہی الٹی گنتی شروع ہو، فوراً انھیں پہن لیں اور اس وقت تک پہنے رکھیں جب تک آپ کو نیچے زبردست روشنی نہ دکھائی دے۔’

ہوائی جہاز کے پیٹ میں ساڑھے 11 فٹ لمبا، چار ٹن وزنی نیلے اور سفید رنگ کا بم تھا جس کا نام ‘لٹل بوائے’ تھا۔ نیو میکسیکو کی ٹاپ سیکرٹ لیبارٹری میں بننے والے اس ‘چھوٹے لڑکے’ کا وجود اس قدر خفیہ رکھا گیا تھا کہ امریکی نائب صدر تک کو اس کا علم نہیں تھا۔

سوا آٹھ بجے یہ چھوٹا لڑکا جہاز کے پیٹ سے چھوڑ دیا گیا۔ اسے زمین تک پہنچتے پہنچے 43 سیکنڈ لگے۔ جلد ہی ہواباز میجر چارلز سوین نے شہر کے مرکز سے آگ کا ایک عظیم گولہ اوپر اٹھتے دیکھا۔

شہر کے وسط میں جو کچھ تھا وہ لمحے میں بھسم ہو گیا۔ بم گرنے کے مقام سے 15 کلومیٹر کے دائرے میں ہر شیشہ پگھل گیا۔ درجۂ حرارت ایک لاکھ درجے تک جا پہنچا۔

ایٹم بم

پورا شہر آگ کے طوفان کے تھپیڑے کھانے لگا۔ شہر کی ڈھائی لاکھ لوگوں میں سے 80 ہزار ایک لمحے کے اندر اندر جل کر بھسم ہو گئے۔

جہاز کے پچھلے حصے میں بیٹھے باب کارن نے اپنے کوڈک کیمرے سے نیچے کے منظر کی تصویر لے لی جس میں جامنی بادلوں کے اندر سے روشنی کا تین ہزار فٹ بلند مشروم کی شکل کا مرغولہ اوپر اٹھ رہا ہے۔

ایٹم بم

ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے

فوکوئیچی نامی ہیروشیما کے باسی اس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں:’اچانک میں ایک عظیم آگ کا گولہ دیکھا جو سورج سے کم از کم پانچ گنا بڑا اور دس گنا زیادہ روشن تھا۔ یہ سیدھا میری طرف آ رہا تھا۔’

شریک ہواباز رابرٹ لوئس نے اپنی لاگ بک میں لکھا: ‘میرے خدا، یہ ہم کیا کر رہے ہیں؟’

37 سالہ مقامی صحافی ناکامورا اس وقت ہیروشیما سے باہر تھے، لیکن دھماکے کے اثر سے وہ گر پڑے اور ان کا چہرہ شیشہ لگنے سے زخمی ہو گیا۔ تاہم انھوں نے اپنی موٹر سائیکل اٹھائی اور شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔

وہ ہیروشیما کی تباہی دیکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے اپنے اخبار کو بریکنگ نیوز بھیجی: ‘سوا آٹھ بجے دشمن کے دو جہازوں نے ہیروشیما پر کوئی خصوصی بم گرا دیا ہے۔ ہیروشیما مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔’

جب اخبار کے بیوروچیف کو یہ خبر ملی تو اس نے یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ فوج اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی کہ شہر تباہ ہو گیا ہے اور اتنی تعداد میں لوگ مر گئے ہیں۔ اس نے ناکامورا سے کہا کہ وہ ہلاکتوں کی تعداد کو کم کر دے۔

ناکامورا نے جواب دیا، ‘فوج بےوقوف ہے!’

تین دن بعد نو اگست کو ایک اور جاپانی شہر ناگاساکی پر اسی قسم کا ایک اور بم گرا دیا گیا۔ اس بار بم کا نام ‘فیٹ مین’ (موٹا آدمی) تھا۔ اسے بوکسکار طیارے سے گرایا گیا اور اس کے پائلٹ کا نام میجر چارلس سوینی تھا۔

ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل گذشتہ تین روز میں ہیروشیما پر دنیا کے پہلے ایٹمی حملے میں کم از کم ایک لاکھ 40 ہزار افراد مارے گئے تھے۔

دھماکے کی شدت اس قدر تھی کہ گھروں کے شیشے اڑ کر آٹھ کلومیٹر دور تک جا گرے۔

تانیگوچی اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘اچانک قوسِ قزح کی طرح کی روشنی نمودار ہوئی۔ ایک طاقتور جھکڑ نے میرے قدم اکھیڑ کر مجھے دور جا پھینکا۔

‘جب مجھے ہوش آیا تو میرے بائیں بازو کی جلد کندھے سے لے کر انگلیوں کی پوروں تک کسی چیتھڑے کی طرح لٹک رہی تھی۔ میرے کپڑے (جل کر) غائب ہو گئے تھے اور میری جلد جل گئی تھی۔

‘سیاہ لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ گری ہوئی عمارتوں کے اندر سے لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ لوگوں کا گوشت بدن سے گر رہا تھا اور ان کی اندر کے اعضا باہر آ گئے تھے۔ یہ جہنم کا منظر تھا۔’

ناگاساکی کی بدقسمتی یہ ہے کہ حملے کے دن جہاز دراصل ایک شہر کوکورا پر بم گرانے جا رہا تھا، لیکن وہاں موسم خراب تھا اس لیے بوکسکار نے ناگاساکی کا رخ کر لیا۔

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ناگاساکی کا اچھا موسم اس کی تباہی کی وجہ بن گیا۔

امریکہ ایٹم بم کے استعمال کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی توجیح کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والی فوجی اور شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جاپان پہلے ہی ہتھیار پھیکنے کے لیے تیار تھا اور امریکہ کی جانب سے ایٹم بم محض اپنی فوجی برتری کے اظہار کے لیے گرائے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp