6200 میٹر بلندی پر روسی کوہ پیما کے ریسکیو کی کہانی: ’صرف دو گھنٹے کے فرق سے دوست کھو دیا‘


روسی

وہ دونوں یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ لاٹوک ون پر ایسا موسم نہیں ہے کہ اُسے سر کیا جا سکے لہٰذا وہ نیچے اُتر رہے تھے۔ اُنھیں ہیلی کاپٹر نظر بھی آیا جو اُن ہی کی مدد کو آیا تھا لیکن اُنھوں نے خود نیچے اُترنا مناسب سمجھا۔ اُنھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اِس فیصلے کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

روسی کوہ پیما سرگئے گوزونوف آج زندہ ہوتے اور اپنے ساتھی الیگزینڈر گوکوف کے ساتھ ماسکو میں ہوتے۔ لیکن یہ سب اُس وقت ہوتا جب وہ پہاڑی چوٹی لاٹوک ون پر لڑکھڑا کر گرنے سے صرف دو گھنٹے پہلے پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے کا فیصلہ کر لیتے۔ کیونکہ اگلے دو گھنٹوں کے دوران وہ ہونے والا تھا جس کا تصور ہی ہولناک تھا۔

’میں رونا چاہ رہا تھا لیکن بس وہاں کچھ نہیں تھا‘

پاکستان: فرانسیسی کوہ پیما کو بچا لیا گیا

یہ سب باتیں بتانے والے ایک اور کوہ پیما وکٹر کوبول ہیں جو لاٹوک ون سر کرنے کی مہم پر تو نکلے تھے لیکن ان کا راستہ قدرے مختلف تھا اور وہ خود بھی کچھ ذیادہ محتاط تھے۔

‘ہم دونوں بیس کیمپ سے ساتھ نکلے تھے لیکن الگ الگ راستوں پر۔ ہم نے آٹھ دن کوہ پیمائی کی لیکن پھر ہمیں احساس ہوا کہ یہ موسم اِس کام کے لیے بہت خطرناک ہے۔ وہاں ہر پانچ منٹ پر بہت سارے ایوالانچ آ رہے تھے اور پتھر گر رہے تھے۔ پھر ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور ہم واپس بیس کیمپ آگئے۔’

جبکہ الیگزینڈر اور اُن کے 26 سالہ ساتھی سرگے نیچے اپنے ساتھیوں کے خدشات سے بے خبر تھے اور اُنھیں منزل صرف سو ڈیڑھ سو میٹر دور نظر آ رہی تھی۔ وہ لاٹوک ون سر کرنے والے تھے۔ پھر موسم خراب ہونا شروع ہوگیا اور اُنھوں نے بھی نیچے جانا مناسب سمجھا۔

چار کوہ پیماؤں میں سے دو تو بیس کیمپ واپس پہنچ گئے لیکن دو ابھی لاٹوک ون پر ہی تھے۔ دو دن کے انتظار کے باوجود اُن کی کوئی خیر خبر نہ ملی تو وکٹر کوبول نے روس پیغام بھیجا کہ اُن کے ساتھی کو بچایا جائے۔

نقشہ

پاکستان اور روس کے سفارتخانوں کا آپس میں رابطہ ہوا اور پاکستانی فوج کو ریسکیو آپریشن شروع کرنے کا کہا گیا۔

ہیلی کاپٹر آیا جسے تجربہ کار پائلٹس اُڑا رہے تھے۔ وکٹر نے آکسیجن اور خوراک کا ایک بیگ تیارکیا ہوا تھا کہ شاید اُن کے ساتھیوں کو ضرورت ہو۔

وکٹر نے بتایا کہ ‘ہم نے پہاڑوں میں اپنے ساتھیوں کی تلاش میں ساڑھے چھ ہزار میٹرز کی بلندی پر پرواز کی اور کوہ پیماؤں الیگزینڈر اور سرگے کو دیکھا جو نیچے اتر رہے تھے لیکن بہت آہستہ۔ میں نے اُن کے لیے تیار کیا ہوا بیگ پھینک دیا۔ اُنھوں نے ہمیں اشارہ کیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لہذا ہم واپس بیس کیمپ چلے گئے۔’

جس موسم کے آگے وکٹر اور اُن کے ساتھی نے کافی پہلے ہار مان لی تھی اُس موسم کے آگے الیگزینڈر اور سرگئے ہار ماننے کو تیار نہیں تھے اور اُنھوں نے ہیلی کاپٹر کے بجائے خود اُترنے کو ترجیح دی۔ لیکن اُنھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اگلے دو گھنٹے اُن کی زندگیوں میں کتنی تکلیفیں لانے والے ہیں۔

وکٹر ساتھیوں کو لاٹوک ون سے نیچے اترتے دیکھ کر واپس ہیلی کاپٹر میں بیس کیمپ پہنچ گئے لیکن دو گھنٹے بعد اُنھیں پیغام ملا۔

‘مجھے الیگزینڈر کا پیغام ملا کہ سرگے گوزو نوف گر گیا ہے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ مر گیا ہے۔ اور الیگزینڈر وہیں موجود رہا جس کے پاس نیچے اترنے کا کوئی اوزار نہیں تھا۔’

الیگزینڈر کہتے ہیں کہ وہ جب 6200 میٹرز کی بلندی پر پہنچے تو اُنھیں محسوس ہوا کہ اُنکا ساتھی سرگئے اُن کے ساتھ نہیں ہے۔ ‘میں نے چیخ چیخ کر اسے آواز دی لیکن اُس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں مذید نیچے کی جانب اُترا تو رسی کے آخر میں بھی وہ مجھے نہیں ملا شاید وہ اپنے وزن کی وجہ سے نیچے گر گیا تھا۔’

روسی

اب صورتحال یہ تھی کہ وکٹر بیس کیمپ میں تھے۔ اُن کے ساتھی چھ ہزار میٹرز سے ذیادہ بلندی پر لاٹوک ون پر کہیں پھنسے ہوئے تھے۔ وکٹر اُن تک پہنچ نہیں سکتے تھے کیونکہ اِس کام میں آٹھ دن لگ جاتے اور اِس بات کا بھی خدشہ تھا کہ بچانے والا خود بھی موسم کی خرابی کی نذر نہ ہوجائے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہو رہا تھا۔ پھر چھ دن موسم اتنا خراب رہا کہ ہیلی کاپٹر ریسکیو نہیں کر سکا۔ اب لاٹوک ون پر الیگزینڈر کو خود ہی اپنی جان بچانے کے لیے کچھ کرنا تھا۔

الیگزینڈر کی زندگی اور موت کے درمیان بس آکسیجن کا سلینڈر اور خوراک کی معمولی مقدار حائل تھی جسے اُن کو نجانے کتنے دن چلانا تھا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنے گرد برف کی ایک دیوار بنائی تاکہ اُن پر موسم کا اثر کم سے کم ہو اور جسم کی حرارت برقرار رہے۔ پانچ دن ایسے ہی گزرے جو شاید الیگزینڈر کےلیے صدیوں سے طویل ہوں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موت قریب دکھائی دینے لگی ہو۔ لیکن وہاں 6200 میٹرز کی بلندی پر تو سما ہی کچھ اور تھا۔

الیگزینڈر کو تو خواب آ رہے تھے کہ وہ باکل ٹھیک ہیں اور اپنے گھر میں موجود ہیں۔

الیگزینڈر کہتے ہیں ‘ایسا موسم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ سات دن تک برفانی تودے، برفانی تودے اور برفانی تودے۔’

نیچے بیس کیمپ میں وکٹر کی جان پر بنی تھی۔ اُنھیں نہیں معلوم تھا کہ اُن کا ساتھی اب بھی زندہ ہوگا یا موسم کے آگے ہار گیا ہوگا۔

6200 میٹرز کی بلندی پر ریسکیو آپریشن نہیں کیا جا سکتا اور یہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچنے کی بلندی نہیں تھی۔ مستقل برفباری ہو رہی تھی اور بادل چھائے ہوئے تھے۔

وکٹر نے بتایا ‘ایسا پانچ دن ہوتا رہا اور میں ہر دن اور رات موسم کی صورتحال دیکھتا تھا اور ہر گھنٹے میں پہاڑوں کو دیکھتا تھا کہ کیا ہم ہیلی کاپٹروں میں وہاں جا سکتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ پہاڑ بادلوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔’

روسی

اِس دوران پائلٹس نے کئی بار نچلی فلائٹ کی تاکہ سرگئی کی لاش تلاش کی جا سکے لیکن وہ بھی نہیں مل سکی۔

ساتویں دن حیرت انگیز طور پر موسم اچھا ہوگیا۔ہیلی کاپڑوں کے پائلٹس کو پیغام بھیجا گیا وہ ایک گھنٹے میں پہنچ گئے۔ ہیلی کاپٹرز کے دروازے اتار دیے کیونکہ وہ بہت بھاری تھے۔ آئل اور دیگر وزنی اشیا وہیں اتار دیں۔ اور ایک لمبی رسی ہیلی کاپٹر سے باندھ دی گئی کیونکہ سطح ہموار نہیں تھی اور ہیلی کاپٹر کا لینڈ کرنا دشوار تھا۔

وکٹر ریسکیو پائلٹس کے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں سوار تھے۔

‘ہیلی کاپٹر اُس بلندی پر پہنچا اور ایلیگزینڈر کو تلاش کر لیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور نڈھال تھا۔ لیکن اُس نے اپنی زندگی بچانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے رسی اپنے گرد باندھ لی۔ دو سے تین منٹ کے اندر وہ ہیلی کاپٹر میں تھا اور خطرے سے باہر تھا۔ میں نے اُسے ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ اور اُس کے بعد ہم سکردو کے ملٹری ہسپتال کے لیے نکل گئے۔’

ابتدائی ایک گھنٹے الیگزینڈر گنگ رہے اُنھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ جو خواب اُنھوں نے دیکھا تھا اب وہ شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا تھا۔

الیگزینڈر کو پہلے سکردو اور بعد میں سی ایم ایچ راولپنڈی پہنچایا گیا۔

روسی

اُنھوں نے لاٹوک ون پر اپنا ساتھی کھویا اور شاید اُسے سر کرنے کی ہمت بھی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ اب کبھی ایسا نہیں سوچیں گے۔ لگتا ہے الیگزینڈر کو اب زندگی سے پیار ہوگیا ہے۔ اُس کی وجہ اُن کا شادی کا ارداہ ہے۔

‘میں اپنی گرل فرینڈ سے محبت کرتا ہوں۔ ہمارے دو بچے ہیں، ہم ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم نے اب تک شادی نہیں کی البتہ میں سوچ رہا تھا کہ اب میں واپس جاؤں گا تو اب میں اُس سے ضرور شادی کرلوں گا۔’

اب الیگزینڈر گوکوف ماسکو کے ہسپتال میں ہیں اور سب ٹھیک ہے۔ اور یہ کہانی سنانے والے وکٹر کوبولٹ سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ہیں۔ وہ پاکستانی فوج کے تجربہ کار پائلیٹس سے کہنا چاہتے ہیں کہ یہ سب اُن کی وجہ سے ممکن ہوا۔

‘اُن کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ میں اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اُنھوں نے میرے دوست کو بچایا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp