ایک محبت، ایک فسانہ


شہر کے اس پسماندہ محلے میں دھڑکنے والے لوئر مڈل کلاس کے دو دلوں میں محبت کئی ماہ تک بُکل مارے بیٹھی رہی، مگر یہ کافر اپنا وجود منوائے بغیر کب رہتی ہے؟ چاہت کی چنگاری سلگ اٹھے تو کوئی پانی کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

اس شب ان کی گلی میں شادی کی ایک تقریب کے دوران دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو گردش دوراں جیسے تھم سی گئی۔ محبت نے بُکل اتار پھینکی۔ تقریب کے اختتام تک فاخرہ نے اپنے دل کے رومال پر اس کا نام کاڑھ لیا اور ذیشان نے بھی اپنی چاہت کا ہار فاخرہ کے گلے میں ڈال دیا۔ نگاہوں نے دو طرفہ معاہدۂ محبت پر خاموشی سے دستخط کیے تو انہیں لگا کہ دلہن کے گھر کے در و دیوار ان کے دلوں کی سنگت میں محو رقص ہیں۔

حسن امرا کی میراث نہیں۔ کھلی رنگت اور تیکھے نقوش کی حامل سرو قد فاخرہ نے ذیشان کی محبت کی خلعتِ فاخرہ پہنی تو جیسے جیون میں رنگ سے بھر گئے۔ اولین محبت کے جنوں کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ وہ چھپ چھپا کر گھر سے نکلتی اور ذیشان کے ساتھ اس کی پرانی موٹر سائیکل پر اڑتی پھرتی۔

راز و نیاز کے لیے سٹی پارک کے جنوب مغربی کونے میں آخری بنچ پر پہنچتے ہی درختوں کے پتے تالیاں بجا کر انہیں خوش آمدید کہتے اور سرخ گلاب کے پھول ہالہ کر لیتے۔ وہ غٹر غٹر باتیں کرتی قہقہہ لگاتی تو کلیاں چٹخنے لگتیں اور پھول جھوم کر واری واری جاتے۔

فاخرہ پر ذیشان کی محبت کا چھاجوں مینہ برسا تو وہ نہال ہو گئی۔ پھر ایک دن ذیشان کے اصرار پر اس کی ماں نے جا کر فاخرہ کے والدین کے آگے جھولی پھیلا دی اور اگلے ہی ہفتے منگنی کی سادہ سی تقریب میں دو پریمیوں نے ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھیاں پہن لیں۔ دل اور بھی قریب آ گئے۔

محبت کے اس سفر نے پانچویں ماہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ ملک میں عام انتخابات کا بگل بج گیا۔ رنگ برنگے بینروں، جھنڈوں، ریلیوں اور جلسوں کا موسم آ گیا۔ فاخرہ ایک نئی سیاسی جماعت ”انقلاب پارٹی‘‘ سے جذباتی لگائو رکھتی تھی، جس کے منشور میں ملک سے استحصالی نظام کا خاتمہ شامل تھا۔

پارٹی چیئرمین کی آتش بجاں تقاریر نے فاخرہ کے بغاوت شعار جذبات کو خوب جلا بخشی تھی۔ پارٹی کے منشور میں اسے اپنی تمام محرومیوں کا مداوا نظر آتا تھا، جو ازل سے لوئر مڈل کلاس کا مقدر ہیں۔ وہ باقاعدہ پارٹی کے مقامی امیدوار چوہدری حاکم کی فورس میں شامل ہو گئی اور سہیلیوں کے ہمراہ اس کے جلسوں میں عزم و ولولے سے شرکت کرکے اپنے اور ملک و قوم کے لیل و نہار بدلنے کے خواب دیکھنے لگی۔

ادھر ذیشان ”سلامت پارٹی‘‘ کا پُر جوش کارکن اور اس کے یوتھ ونگ کا ممبر تھا۔ سلامت پارٹی نے اس حلقے سے ملک خداداد کو ٹکٹ دیا تھا۔ ملک نے پارٹی ورکروں کی میٹنگ بلائی، جس میں ذیشان بھی شریک ہوا۔ الیکشن لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی اور ورکروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ ملک خداداد کی جذباتی تقریر نے ورکروں میں نئی روح پھونک دی اور وہ جوش و خروش سے اسے کامیاب کرانے میں جُت گئے۔

آج پہلی بار ذیشان اور فاخرہ میں اختلاف ہوا تھا۔ دونوں جذبات کے بگولوں پر سوار ایک دوسرے کو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چونکہ ٹھوس دلیل کسی کے پاس نہ تھی لہٰذا تلخ کلامی ہو گئی اور فاخرہ پہلی مرتبہ ذیشان سے لڑ بیٹھی۔

ملک میں ابھی جمہوری رویے اتنے پختہ نہ ہوئے تھے کہ دونوں اپنے اپنے سیاسی نظریات پر قائم رہتے ہوئے اکٹھے چل سکتے۔ فون اور ملاقاتوں میں بحث مباحثہ جاری رہا، مگر دونوں اپنے اپنے نظریات پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ فاخرہ نے انا کے گنبد کو آسمان بنا لیا تو ذیشان نے غیرت کا مسئلہ۔ محبت میں دراڑیں آتی گئیں۔ دونوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں چوہدری حاکم اور ملک خداداد کی شر انگیز تقریروں نے اہم کردار ادا کیا، جو سیاسی اختلافات کو نقطہ اشتعال تک لے گئیں۔

دونوں لیڈر اپنی تقریروں میں مخالف امیدوار پر ایسی بے رحمی سے الزامات کی سنگ باری اور گالیوں کی بوچھاڑ کرتے کہ لگتا اگر سامنے آ جائیں تو ایک دوسرے پر فائر کر دیں۔ دونوں ایک دوسرے پر مالی بد عنوانیوں اور اشتہاریوں کو پناہ دینے جیسے سنگین الزامات عائد کرتے، جو بہت حد تک درست بھی تھے۔

ہر دو امیدواروں نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر کشیدگی بڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، جس کی بنا پر حلقے میں کئی مرتبہ ورکروں کے مابین لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آئی اور متعدد لوگ زخمی ہوئے۔

عام انتخابات میں دس دن رہ گئے تھے۔ ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کے بعد ملک خداداد پارٹی ورکروں سے مل رہا تھا‘ جب ذیشان نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا تو ملک نے کہا ”سنائو بھئی! تمہاری مہم کیسی جا رہی ہے؟‘‘ ذیشان سے پہلے ہی ایک اور ورکر چہک کر بولا ”سر! اس کی منگیتر دشمنوں کے کیمپ کی پُر جوش ورکر ہے، یہ کیا خاک مہم چلائے گا؟‘‘

ملک خداداد نے حیرت سے ذیشان کو دیکھا تو اس کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس نے فوراً ایک فیصلہ کر لیا۔ اسے ملاقات کے لیے ایس ایم ایس کرنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑی تھی۔ فاخرہ کا پیغام پہلے ہی آ گیا۔ اسے بھی آج اپنی پارٹی میٹنگ میں ایسا ہی طعنہ مل چکا تھا۔

غریبوں اور لوئر مڈل کلاسیوں کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے مفادات کا ایندھن بنا کر اپنی زندگیاں تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ آج پہلی دفعہ وہ سٹی پارک کے جنوب مغربی کونے میں الگ الگ بینچوں پر بیٹھے تھے۔

درختوں کے پتوں اور گلابوں کو یہ بات اتنی بری لگی کہ انہوں نے تالیاں بجائیں، نہ ہی جھومر ڈالا۔ تند خوئی اور تنک مزاجی اپنے عروج پر تھی۔ محبت کے آبگینے سیاست کے حصار سنگ کو توڑنے میں ناکام رہے۔ چاہت کی لے ٹوٹ گئی، پیار کی تان بگڑ گئی۔ تلخ نوا مذاکرات میں ناکامی کے بعد فاخرہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ”میرا اور تمہارا سر ایک تکیے پر اکٹھے نہیں ہو سکتے، کبھی نہیں‘‘ دونوں نے اپنے اپنے ہاتھوں کو انگوٹھیوں کے بار سے آزاد کیا اور انہیں ایک دوسرے کے حوالے کرکے مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔

تیز ہوا چلی، پھولوں نے نوحہ گری کی اور پتوں نے ماتم داری۔ گھر آ کر فاخرہ اپنے کمرے میں گھس کر خوب روئی۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اس نے پوری قوت سے دل کا شٹر گرا دیا۔

انتخابات میں سلامت پارٹی جیت گئی۔ چوہدری حاکم بھی ملک خداداد سے ہار گیا۔ مصائب نے جیسے فاخرہ کا گھر دیکھ لیا۔ وہ محبت کے تخت سلیمان سے گری تو انقلاب پارٹی کے ذریعے لیل و نہار بدلنے کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔ پھر چند روز بعد اس کا باپ خاموشی سے مٹی اوڑھ گیا۔ ماں بیٹی قریہ بے اماں میں بے یارومددگار رہ گئیں۔

تلخ حقائق کی تمازت نے خوابوں کا گلستان خاکستر کر دیا۔ سوگ اور جذبات کے گرداب سے نکلی تو فاخرہ کو اپنے بے وقوفی کا احساس ہوا۔ محبت کی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگنے لگیں۔ مہجور صبحیں اور فرقت زدہ شامیں اسے کاٹنے لگیں۔ ایک روز وہ گھر سے نکلی تو گلی میں دور اسے ذیشان جاتا ہوا دکھائی دیا۔ دل کا شٹر اس نے جس زور سے گرایا تھا، وہ اتنی ہی قوت سے اُٹھ گیا۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).