’’ دشمنوں کے لئے نظمیں ‘‘—-ایک تاثراتی مطالعہ


دشمنوں کی ڈی کنسٹرکشن

ابھی کچھ دیر پہلے حفیظ تبسم کی کتاب کا مسودہ بذریعہ ای میل موصول ہوا تو حسرت آلود یادوں کی ایک پٹاری سی کھلتی چلی گئی (چونکہ وائی فائی کی سپیڈ معمول سے کچھ کم تھی لہذا نظموں کی فائل کافی دیر بعد جاکر کھلی )۔
فائل تو جیسے تیسے کھل گئی مگر جب ایک مرتبہ دشمنوں کے لئے ساری نظمیں پڑھ چکنے کے بعد بھی یہ سمجھنے سے قاصررہا کہ آخر ان دشمنوں کے درمیان وجہ دشمنی کیا ہے تو نقطہ اختلاف کے بجائے نقطہ اشتراک پر غور کرنے کا فیصلہ کیا۔

”دشمنوں‘‘ کو ”دوستوں‘‘ سے بدل کر دیکھاتو بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی مگر ساتھ ہی اپنی سہل پسندی پر گھن سی آئی تو فوراً موڑ کاٹ لیا!
ابتداء میں تو سفر ٹھیک رہا تاہم جونہی لفظ۔ “ دشمن ”کوھو لِسٹک انداز میں سمجھنے کی کوشش کی تو راستہ ایکدم بلاک ہوگیا!
دائیں بائیں ذہن گھمایا (حتیٰ کہ ہارن بھی بجایا) مگر سب بے سود!
کوئی راہ سجھائی نہ دی تو دوبارہ ساری نظمیں پڑھ ڈالیں!

دشمنوں کی بھی خوب رہی، بہ نظر ِ غائرتو سبھی جانے پہچانے سے محسوس ہوئے، لیکن جونہی حافظے پر زور ڈالا، آشنائی ہاتھ سے جاتی رہی!
نوٹیفکیشن دیکھنے کے لئے فیس بک آن کی تو سوچا کیوں نہ لگے ہاتھوں حفیظ تبسم کی پروفائل دیکھ لی جائے۔ ممکن ہے کوئی گمشدہ سرا ہاتھ آجائے۔ مگر کہاں! وہی خوابیدہ اور خواب گزیدہ سی آنکھیں اور چہرے پر دنیا جہان کی عاجزی اور انکسار بکھرا ہوا۔ حفیظ تبسم کسی بھی زاویے سے دشمن دار آدمی دکھائی نہ دیا۔
ٹھوک بجاکر اس کی پروفائل دیکھ چکنے کے بعد اس کی فرینڈ لسٹ میں جاگھسا تو یہ جان کر قطعی حیرت نہ ہوئی کہ یہاں بھی دشمنوں وغیرہ کی اکثریت ہمار ے مشترکہ دوستوں پہ مشتمل تھی۔
دھت تیرے کی۔ اتنی سی بات تھی۔ لیجیے دشمنی کا سارا عقدہ کھل گیا!

اب آپ ہی بتائیے۔ فرانس کے سارتر، چلی کے پابلو نیرودا، بمبئی کے سعادت حسن منٹو، لاہور کے ابراراحمد، لودہراں کے ساحرشفیق، گوجرانوالہ کے شہزاد نیرّ، ملتان کے منور آکاش، سوات کی ملالہ یوسفزئی اور کراچی کے افضال احمد سیّد، ثروت حسین، صغیرملال اور سبین محمود، حفیظ تبسم کے دشمن ہو ں بھی تو کیوں ہو ں کہ یہ سب تو اس خواب نگر کے باسی ہیں جہاں نفرت، حسرت اور دشمنی کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی۔ ہاں، مگر ان کو ہر سماج کے اُس اکثریتی طبقے نے اپنا دشمن ضرور سمجھا جو طاقت اور تشدد کے بل بوتے پر اپنی بات منوانے کا داعی تھاکیونکہ یہ سب لوگ ہمارا اجتماعی ضمیر ہیں اور ضمیر کا سامنا کرنا مشکل ہوجائے تو اُ س کا حلق دبانا آسان لگتا ہے۔
یہ اپنے اپنے خواب کے بلبلوں سے چمٹے ہوئے لوگ ازل سے دشمن سمجھے جاتے رہے ہیں اور حفیظ تبسم نے انہی دشمنوں کے لئے نظمیں لکھ کر انقلابی اور اختلافی آوازوں کی روایت کا اعادہ کیا ہے۔

ایک نئی دیو مالا کی تلاش

حفیظ تبسم نے بظاہر جانی پہچانی، ادبی اور غیر ادبی شخصیات کو کچھ اس طرح کے ماورائی کرداروں میں ڈھال دیا ہے کہ حقیقی اور غیر حقیقی کی بحث یکسر غیر متعلق ہوکر رہ گئی ہے۔ یو ں لگتا ہے جیسے اس کے کردار مِتھ کی مٹی میں گندھ کر تیار ہوئے ہوں اور وہ اُن کے وسیلے ایک نئی دیو مالائی تشکیل چاہتا ہو۔ مثال کے طور پر یہ منور آکاش ہیں۔ نظم کی ابتداء ہوتے ہی یوں محسوس ہو تا ہے جیسے منورآکاش، آسمان کی بلندیوں سے اتر کر ایورسٹ کی ترائیوں میں جا پہنچے ہوں اور اگلے ہی لمحے افریقہ کے جنگلوں سے ہوتے ہوئے چیچو کی ملیاں میں لینڈ کرگئے ہوں۔ یا پھر انور سن رائے ہیں کہ جن کا ذکرِخیر شروع ہوتے ہی گماں گزرتا ہے کہ ابھی کسی بات پر غضبناک ہوکر آگ کے گولے اور انگارے برسانا شروع کردیں گے اور جب ان کا غصہ اتر جائے گا تو دھرتی کی تہہ میں اتر کر واپس اُسے اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے۔ حفیظ تبسم شرابوں میں شرابیں ملانے کا فن خوب جانتا ہے لہذا جب وہ ”عرابچی‘‘ اور نصیر احمد ناصر سے بیک وقت ہم کلام ہوتا ہے یاروش ندیم اور“ ٹشو پیپر پر لکھی ہوئی نظموں ”کو باہم کرڈالتا ہے تو اس لمحے وہ ایک نئے طرز کی بین المتونیت کو جنم دیتا ہے( جوایک تہذیبی مکالمے کی ابتدا ء تو ہے ہی، ایک ثقافتی مکاشفے کا آغاز بھی ہے)۔

ممکن ہے مجھ ایسے کھردرے حقیقت پسند کی خود شکستگی، تشکیک اور قنوطیت پر مائل طبع کو حفیظ تبسم کی یہ ”لارجر دین لائن‘‘ فضا راس نہ آئے مگر یہی زندگی سے ماورا فضا حفیظ تبسم کی نظموں اور اس کے کرداروں کو ایک ایسی رومانوی سطوت عطا کرتی ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنی میلی کچیلی روحوں اور پیوند لگے جسموں سے بالاتر ہوکر ایک ایسے جیون کو خلق کرسکتے ہیں جہاں کمسن آنکھوں کے خوابوں کو اڑنا سکھایا جائے اور جہاں ہر انسان ایک دیوتا بننے کی شکتی لے کر پیدا ہو۔

عجلت ِاظہار
(ایک مختصر تاثراتی مطالعہ)

ساراشگفتہ، افضال احمد سیّد، ساحرشفیق، زاہداِمروز اور ذی شان ساحل کی روایت کے برعکس حفیظ تبسم کی نثری نظموں کا مزاج نثر سے کہیں زیادہ قریب ہے (کچھ نظموں پر تو نثریئے ہونے کا گمان بھی گزرتا ہے)۔ پھر ان نظموں کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے حفیظ تبسم نے شبدوں کے چناؤ میں عُجلت کا مظاہرہ کیا ہو اور اگر وہ اِس حوالے سے نظر ثانی کرلیتا تو الفاظ کا دروبست بہتر ہوسکتا تھا۔ بدقسمتی سے اس جلد بازی کا خمیازہ بہت سی ایسی نظموں کو بھی بھگتنا پڑا جو اپنے خیال کی سطح پر تو کافی توانا تھیں مگر حتمی پیشکش میں وہ توانائی برقرار نہ رکھ پائیں۔
بسا اوقات حفیظ تبسم کو وحدت ِتاثر برقرار رکھنے میں بھی دِقّت پیش آتی ہے تاہم وہ نظم کے اختتام تک اس لڑکھڑاہٹ کو سنبھال لیتا ہے کیونکہ بہرحال، اُس کے پاس شارپ کلائمکس کا فیصلہ کن ہتھیار موجود ہے۔

”دشمن داری‘‘ کا فیض

زندگی اُس ہنڈیا کی طرح ہے جسے نمک، مرچ، گرم مصالحے اور گھی کے بغیر تیار کیا گیا ہو۔ یہ نہایت بے کیف، بے ہودہ، بدمزہ، پھیکی اور پھسپھسی چیز کا نام ہے۔ اِس کے معمولات میں ایسی یبوست، یکسانیت اور بیزاری پائی جاتی ہے جو کسی خون آشام چڑیل کی طرح لوگوں کا لہو چوس کر انہیں بے رس کردیتی ہے اور جب وہ کھوکھلے اور خالی ہوجاتے ہیں تو انہیں کچرے کے ڈبوں اور غلاظت کے ڈھیروں میں ڈال کر نئے شکاروں کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ زندگی، جو ایک خونی شکنجہ ہے، اِس کے چنگل سے بچ نکلنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اِس کی سطح سے اوپر اُٹھنے کا جتن کیا جائے۔
حفیظ تبسم خوش قسمت ہے کہ اُسے جنون کو آواز دینے اور خوابوں کو پکارنے کا ہنر میسر آگیا ہے۔ اُس نے زندگی کی سطح کے اوپر رسیاں ڈال کر اس پر جھولتے رہنے کا فن سیکھ لیا ہے مگر یہ فن اُسے زندگی نے ودیعت نہیں کیا، یہ دشمنوں کا فیض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).