مظلوم کا زمینی خدا


اس خاندان میں پڑھنے لکھنے کا کوئی رجحان نہ تھا اس لئے ہم اسے نسل انسانی کے ہم عصر آبا و اجداد کا کنبہ کہا کرتے تھے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہ ایک بڑا خاندان تھا اور محل وقوع کے لحاظ سے ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک بڑے پکے مکان میں مقیم تھا۔

یہاں فوتگی یا پیدائش معمول کا واقعہ تھا اس لئے کنبے کے افراد کی درست تعداد کسی کو معلوم نہ تھی۔ اس خاندان کے بارے میں ہماری معلومات بھی صرف یہاں تک محدود تھیں کہ اس میں دو بزرگ، ان کے سات بچے اور بچوں کے لاتعداد بچے شامل تھے۔ بزرگوں کے ہاں سات بیٹے پیدا ہوئے اور جس نے بھی رینگنا شروع کیا، کسی چھوٹے چوپائے کی طرح رینگتا ہوا باہر نہر کے کنارے ایک چھوٹے سے میدان تک پہنچا اور جب تھوڑا بڑا ہوا تو کسی موچی، نائی یا ڈرائیور کا شاگرد ہوکر پہلے اس فن میں جفت اور پھر طاق ہوگیا۔

مجھے یاد ہے میں گریجویشن کے نتیجے کے انتظار میں تھا اور لاتعداد بچوں کی صورت میں اس خاندان کی تیسری نسل اُسی میدان میں موجود تھی جہاں ان کی پچھلی نسل پل کر جوان اور پھر فوراً صاحب اولاد ہوگئی تھی۔ ان بچوں نے بھی بڑے ہوکر بھی کسی قدیمی پیشے کا انتخاب کرنا تھا لیکن خاندان کے بڑے بیٹے کی بڑی بیٹی جب کام کاج کے قابل ہوئی تو اس زمیندار کے ہاں ملازمہ ہوگئی جس کا اکلوتا بیٹا میرا بہترین دوست تھا۔

وہ دوست اور میں دن رات مطالعے میں غرق رہتے اور جب بھی ملتے گفتگو میں راتیں گزر جاتیں۔ مجھے یاد ہے اُس روز بھی صبح سویرے میں کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا جب گھر میں کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دی اور تھوڑی دیر بعد والدہ اسی خاندان کی بڑی بہو کو لے کمرے میں داخل ہوئیں۔ اُس عورت کا نام کوثر تھا جس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُس کی بیٹی کل شام زمیندار کے گھر کام پر گئی تھی، ابھی تک نہیں لوٹی اور ا ب اُسے پتہ چلا ہے کہ زمیندار کی بیوی نے اُسے بھوکا پیاسا مرغیوں کے ڈربے میں بند کررکھا ہے۔

مجھے کوثر کی کہانی سن کر دُکھ ہوا مگر حیرت نہیں ہوئی۔ میرا دوست بلا شبہ ایک دردِ مند اور انسان دوست نوجوان تھا مگر اُس کے خاندان کے باقی افراد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ میں دوست کی والدہ کا خادماؤں کے ساتھ رویہ کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اس لئے میں نے جلدی سے دوست کا نمبر ملاکر اُسے صورتِ حال بتائی۔ دوست نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر حال میں بچی کو لے کر میرے پاس پہنچ رہا ہے اور کوثر سے انتہائی معذرت خواہانہ لہجے میں میرے گھر رکنے کی درخواست کی۔

یہ سن کر کوثر کو تسلی ہوئی اور چند منٹ بعد میرا دوست بچی کو گاڑی میں بٹھا کر ہمارے گھر لے آیا۔ دوست نے بچی کے سرپر ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی کہ آئندہ اس کے گھر میں اس کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں ہوگا، اس نے کوثر سے اپنی والدہ کے سلوک پر معافی مانگی اور یہ کہا کہ اگر وہ بچی کو کام پر بھیجنے کی بجائے سکول بھیجے تو وہ اس کا پورا خرچ اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ خرچے کا سن کر کوثر کی آنکھوں میں چمک سی آگئی، دوست نے اپنا بٹوہ خالی کرکے سارے پیسے کوثر کی ہتھیلی پر رکھ دیے جو بچی کی تین چار ماہ کی تنخواہ کے برابر تھے۔

کوثر بچی سمیت پیسے لے کر چلی گئی اور ہم کسی مشترکہ دوست کے ڈیرے پر شطرنج کھیلنے چلے گئے۔ راستے میں دوست نے بتایا کہ بچی نے گندے پاؤں ان کے نئے قیمتی صوفے پر رکھ کر انہیں گندہ کردیا جس پر اس کی والدہ نے بچی پر ظلم کیا اور وہ اپنی والدہ کی اس حرکت پر بے حد شرمندہ تھا۔

جب شام کے وقت میں گھر واپس آرہا تھا تو میں نے کوثر کے گھر کے سامنے چھوٹے سے میدان میں ایک خیمہ دیکھا جس میں کسی عورت کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ قریب گیا تو خبر ہوئی کہ چلانے والی کمزور سی عورت ایک ٹوکرا ساز خانہ بدوش کی بیوی ہے جس کا بچہ ہونے والا ہے۔ کچھ دیر بعد خانہ بدوش کے ہاں چوتھی بیٹی پیدا ہوئی۔ کوثر کے ہمسایے میں رہنے والے شیخ صاحب نے بجلی کی تار دے کر ایک پیڈسٹل فین خیمے میں لگا دیا تاکہ زچہ و بچہ کو گرمی سے بچایا جاسکے۔

یہ وہ دور تھا جب میں نے والدہ سے چھپ کر سگریٹ نوشی شروع کررکھی تھی۔ دوپہر کے وقت جب مجھے یہ یقین ہوجاتا کہ والدہ سو گئی ہیں تو میں سگریٹ کے کھوکھے سے تین سگریٹ خریدتا اور ان میں سے دو سگریٹ قیلولہ سے قبل کلاسیکی موسیقی لگا کر پیتا اور ایک امی کے سونے کے بعد نصف شب کی دُخان نوشی کے لئے رکھ لیتا۔ مجھے دوپہر کے وقت سگریٹ لینے کے لئے کوثر کے گھر کے سامنے سے گزرنا پڑتا اور میں یہ دیکھ رہا تھا کہ خانہ بدوش کے خاندان کی آمد نے مظلوم دکھائی دینے والی کوثر کے تیور ہی بدل کرر کھ دیے تھے۔

کوثر کے صبح کے وقت اپنی چارپائی خانہ بدوش کے خیمے کے پاس کیکر کے درخت کے نیچے بچھا کر لیٹ جاتی اور خانہ بدوش کی دو بڑی بچیوں سے کبھی پیر، کبھی ٹانگیں اور کبھی سر دبواتی رہتی۔ ایسے میں اگر کوئی بچی تھک جاتی تو اُس کی نیند ہوا کرنے کے لئے اُسے اتنی زور سے ٹانگ رسید کرتی کہ بعض اوقات بچی چارپائی سے نیچے جا گرتی۔ مجھے کوثر کی یہ حرکتیں دیکھ کر غصے سے زیادہ یہ حیرت ہوتی کہ اس دوران اس کے لیٹنے، بیٹھنے اور جھڑکنے کا انداز بالکل میرے دوست کی والدہ جیسا ہوتا۔ وہی اکڑ، وہی دبدبہ اور وہی طنطنہ۔ اور تو اور مرغیوں کے ڈربے میں رات گذارنے والی کوثر کی بیٹی بھی اُس زہر کی قے ان غریب بچیوں پر کرتی دکھائی دیتی جو اُسے زمیندار کے گھر بار بار پلایا گیا تھا۔

ایک روز حسب معمول دوپہر کے وقت سگریٹ خرید کر واپس آرہا تھا تو میں نے دیکھا کہ کوثر شیشم کی ایک چھڑی خانہ بدوش کی بچی کی کمر پر برسا رہی ہے اور بچی کی چیخیں دُور دُور تک سنائی دے رہی ہیں۔ بچی کا باپ ان کی منتیں کررہا ہے لیکن کوثر کا قہر ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ خیمے کے اندر سے خانہ بدوش کی بیوی بھی چلا رہی ہے لیکن کوثر کچھ سننے کے لئے تیار نہیں اور اس کے ساتھ کھڑی ڈربے میں رات گذارنے والی اس کی بیٹی بھی اس کی ہمت بڑھا رہی ہے۔

یہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کوثر کے ہاتھ سے چھڑی چھین کر بچی کو پیچھے ہٹا لیا۔ کوثر سے بچی کا قصور پوچھا تو اس نے بتایا کہ بچی نے اُس کے پاؤں دباتے دباتے اُس کے دُھلے ہوئے کھیس پر گندے پاؤں رکھ دیے تھے۔ خیمے سے باہر خانہ بدوش اپنی بے بسی پر بیٹھا رو رہا تھا جبکہ خیمے کے اندر اس کی بیوی کوثر سے مار کھانے والی بچی کو سینے سے لگائی بیٹھی تھی۔ بچی عجیب نظروں سے کوثر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف بھی تھا اور مرعوب سی چمک بھی جو صرف کسی عابد کی آنکھ میں اپنے معبود کا جلال دیکھ کر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).