امن کی سڑک کشمیر سے گزرتی ہے


پاکستان اور بھارت سے کابل جانے والی سڑک کشمیر سے گزر کر جاتی ہے۔ کشمیر کی سرحدیں پاکستان، بھارت اور چین سے لگتی ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام شمال مغربی کشمیر کی سرحدیں افغانستان اور چین سے لگتی ہیں۔ شمال مشرق میں اقصائی چن اور ٹرانس قراقرم ٹریک چین کے زیر انتظام ہیں۔ اس خطے میں کئی علاقائی تنازعے ہیں۔ ان تنازعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ افغانستان سمیت اس پورے خطے میں امن کے قیام کے لیے کشمیر میں ثقافت، معشیت اور جمہوری اداروں کا مستحکم اور با اختیار ہونا ضروری ہے

 ریاست جموں کشمیر کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے پڑوسی ملکوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی آرٹ اور کرافٹ کی تجارت کئی دھائیوں سے بھارتی منڈی میں پھل پھول رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے دریا وں اور سڑکوں کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ انیس سو سنتالیس میں ہندوستان کی تقسیم سے قبل راولپنڈی شہر کشمیر کا ریل ہیڈ تھا، اور کشمیری تاجر کراچی شہر کو سمندر پار تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس طرح کشمیر کی معاشی ترقی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ کھلی تجارت ہی واحد راستہ ہے

ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پاکستان اور بھارت کی دونوں کی سیاسی ہیت مقتدرہ کی غیر مشروط خیر سگالی اور نیک نیتی اشد ضروری ہے۔ کشمیر کی سرحدوں اور تقسیم کی لکیروں کو جنگ اور دشمنی کی بنیاد بنانے کے بجائے دوستی اور امن کی خاطر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فوجیں صرف جنگ یا دشمنی کی علامت ہی نہیں ہوتیں۔ یہ امن کی ضمانت بھی بن سکتی ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے کسی بھی ملک کی فوج کا اول و آخر فریضہ صرف اپنے ملک کا دفاع اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہوتا ہے، قومی مفاد یا خارجہ پالیسی کا تعین ملک کے منتخب نمائدوں کا ہی کام ہے، جو انہیں بلاشرکت غیر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

 مجھے بھارتی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک مذاکراتی ٹیم کی ممبر سے جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے کردار کے بارے میں ہونے والی پرانی گفتگو یاد آتی ہے۔ میں نے اس سے بڑی تلخی سے یہ سوال کیا کہ بھارتی فوج کشمیر کے تنازعے میں کیسے اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس خاتون نے بھی برابر کی تلخی سے جواب دیا کہ کچھ اچھے اسٹیک ہولڈر ہوتے ہیں، کچھ برے، اور ایک بغاوت زدہ علاقے میں فوج کا سٹیک ہولڈر ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ مجھے اس جواب سے کوفت ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ ایک ثالث کو پاکستان انڈیا کے امن کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے سفارت کاری اور مکالمے کو ترجیح دینی چاہیے،

 اگر ایک معاشرے کے سیاسی نشونما کو طاقت ور فوجی ہیت مقتدرہ کے ذریعے روک دیا جائے تو ریاستی پالیسیاں جڑ نہیں پکڑ سکتیں۔ فوج سیاسی عمل میں جتنی زیادہ در اندازی کرتی ہے اتنا ہی جمہوری ادرے متزلزل اور کمزور ہوتے ہیں، اور سیاسی نظام پارہ پارہ ہوتا ہےْ۔ اس صوت حال کی ایک واضح مثال پاکستان میں سلامتی کے اداروں کا کردار ہے۔ جتنا زیادہ عسکری ادارے سیاست، گورنس اور قومی مفادات کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں ، اتنا ہی زیادہ قومی مفاد اور جاحارحانہ خارجہ پالیسی کے درمیان فرق کم ہوتا جاتا رہا ہے ۔

جمہوریت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے ریاست کشمیر کے موجودہ زمینی حقائق کے پیش نظرمقامی آبادی کے سیاسی اور معاشی ختیارات کو بڑھایا جائے تاکہ مقامی آبادی تباہ کن نظریات کے زیر اثر نہ آئے۔ جمہوریت کے سیاسی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

جموں کشمیر میں امن کے قیام کے لیے سب کو مذہبی، نسلی اور علاقائی تقسیم سے بالا ہو کر کام کرنا ہوگا، اور اس بات پر اصرار کرنا ہو گا کہ سب کو جمہوری عمل میں حصہ لینے اور اپنے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ کسی قومی ریاست میں فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا اختیار دینا ایک سنگین غلطی ہے، اور یہ غلطی سنگین نتائج کی حامل ہے۔

(ترجمہ: بیرسٹر حمید باشانی )

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan