ووٹر کسی کا نہیں ہوتا


‘ارے شانو تجھے پھر چھٹی چاہیے۔ آخر وجہ کیا ہے روز روز چھٹی کرنے کی۔’ سارہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
‘باجی! کل دراصل پارٹی کا جلسہ ہے وہاں جانا ضروری ہے۔ الیکشن ہونے والے ہیں نا۔’ شانو  نے مزے لیتے ہوئے کہا۔
‘جلسہ؟ الیکشن؟ اور کام نہیں کروگی تو کھاو گی کیا؟’

سارہ نے حیرت سے منہ پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔
‘باجی کام ہی تو کرنے جاتے ہیں، ورنہ ہماری سمجھ میں کیا آتا ہے، سیاسی جلسہ جلوس جی۔ مفت کی سواری ملتی ساتھ کبھی اک دن کا کھانا نہیں تو سوکھا آٹا مل جاتا ہے۔ دو دن سکون سے گزر جاتے ہیں۔’ شانو نے کام ختم کرکے دُپٹا سر پر رکھا تو سارہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
‘تو تم کل نہیں اوگی؟’
‘نہیں بی بی ! ابھی بتایا تو آپ کو۔’ یہ کہہ شانو تیزی سے باہر نکل گئی۔
میں یہ ساری گفتگو بڑی دل جمعی سے سنتا رہا اور اپنی بیوی کی پریشانی کو انجوائے کرتا رہا۔
صحافی ہونے کے ناتے سے میری دل چسپی، اس قصے میں خاصی بڑھ چکی تھی، اب میں بات کی تہہ تک جانا چاہتا تھا، لیکن سارہ کا غصہ آڑے آ رہا تھا۔ لائیو اسٹوری کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے اور الیکشن کے دنوں میں اس کی ڈیمانڈ الگ ہوتی ہے۔

شانو کی غیر حاضری کے دو دن تو بڑے اطمینان سے گزر گئے مگر تیسرے دن سارہ کی تشویش بڑھنے لگی؛ یہ حقیقت ہے کہ گھر کی خواتین کے لیے گھر میں کام کرنے والی بڑی اہمیت رکھتی ہے اور ان کی غیر حاضری گھر کے نظام کو تتر بتر کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہی احوال سارہ کے ساتھ ہوا؛ جب شانو پانچویں دن بھی نہیں آئی تو اس نے مجھے اس کے گھر تک ساتھ چلنے کو کہا، تا کہ وہ اس کے چھٹی کی وجہ جاں سکے۔ میں نے بلا کسی تاخیر کے اس کے ساتھ چلنے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ میں تو پہلے ہی اپنے صحافت کے لیے کوئی مواد ڈھونڈ رہا تھا اور مجھے جیتی جاگتی کہانی ملنے والی تھی جس کے لئے میں نے پورا ہفتہ انتظار کیا تھا۔

وہ ایک قصبہ یا کالونی تھی جہاں غریب طبقہ کثیر تعداد میں نظر آرہا تھا۔ ہم جس گلی پہ رکے وہاں خاصی چہل پہل تھی۔ سامنے میدان میں اک پنڈال بھی نظر آرہا تھا جہاں لوگوں کا ہجوم تھا؛ لوگ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
سارہ مجھے گاڑی میں رکنے کا کہہ کر اک گلی کی طرف چل پڑی، جہاں غالبا شانو کا گھر تھا۔ حبس ہونے کی وجہ سے میں گاڑی سے اتر کر اک چبوترے پر جا بیٹھا، جہاں ایک پینتیس چھتیس سال کا جوان شخص حساب کتاب میں مصروف تھا اور پاس ہی کھڑی بسوں سے اترتے لوگوں سے بھاو تاو کر رہا تھا۔ مجھے اپنے پاس بیٹھے دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کر کے پھر کسی کے ساتھ بحث میں الجھ گیا۔ جب تھوڑا فارغ ہوا تو میں نے پوچھا۔
‘لگتا ہے آپ کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے۔ پر اس کالونی میں؟ آپ کو تو بس اسٹینڈ میں کھڑا ہونا چاہیے تھا؟’
‘نہیں نہیں! ٹراسپورٹ کا کام نہیں، یہ تو بس الیکشن کی مصروفیات ہیں۔’ اس نے جواب دیا اور پھر کسی کو زور سے آواز دے کے بلایا۔
مجھے کچھ کچھ کہانی سمجھ آنے لگی ۔میں نے ان جان بن کے پوچھا۔
‘میں کچھ سمجھا نہیں۔’
‘ارے بھائی! یہ بس جلسہ جلوسوں میں استعمال ہوتی ہے اور ان لوگوں کو وہاں پہنچانے کے کام آتی ہے’۔ اس نے بتایا۔
‘بڑے جمہوریت پسند لوگ ہیں اس کالونی کے۔ لگتا ہے بڑا مینڈیٹ ہے یہاں-‘ میں نے لقمہ دیا۔
‘ہاں بس یہی سمجھ لیں ۔جس کو اس عوام کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنے جلسے میں لے جاتے ہیں ان کو۔’ اس نے جواب دیا۔
‘تو یہ پنڈال کیوں لگایا ہے اور یہ اندراج اور حساب کتاب کس لیے؟’ میں نے اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئے دل  چسپی کا اظہار کیا۔
‘یہ ان کی دیہاڑی لگی ناں، آج کی؛ اور ایک دن کا دو کلو آٹا۔ اسی کا کھاتا ہے۔’ اس نے وضاحت دی۔
‘تو اس کا مطلب یہ کسی ایک پارٹی کے اسپوٹر نہیں؟’ میرا سوال سن کر اس  نے اک زور کا قہقہہ لگایا۔
‘ آپ کو میں وہی تو سمجھا رہا ہوں کہ یہ غریب لوگ ہیں اور مزدوری کے پیسے وصول کر رہے ہیں۔’
میں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے پوچھا، ‘تو یہ عوام ووٹ کس کو دیں گے؟’
‘صاحب ہم غریب عوام کا کیا ووٹ۔ ہمارا ووٹ تو روٹی ہے، جو عزت کی روٹی دینے کا وعدہ کرے اسی کو ووٹ دیتا ہے غریب۔ غریب تو کچھ نہیں مانگتا۔ نہ اسے تعمیرات کا ہوش ہوتا ہے اور نہ ہی ملکی حالت سے۔ جس دن اس کے گھر والے پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں اور سکون کی نیند سوتے ہیں اسی دن ان کی عید ہوتی ہے۔’ اس نے اپنی بات ختم کی۔
‘تو کیا کسی مخصوص پارٹی کا ووٹ بنک نہیں یہاں؟’ ۔میں نے پوچھا۔
‘جناب ووٹر کسی کا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی مہر نہ لگا لے۔ ووٹر اپنی سوچ اور ضرورت کے تحت مہر لگاتا ہے۔ جب تک بیلٹ باکس تک مہر والا پرچا نہ پہنچ جائے ووٹر کسی کا نہیں ہوتا!’۔
یہ کہہ کر وہ آدمی میرے پاس سے ٹھ کر جانے لگا اور میں چپ چاپ اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ واقعی ووٹر اپنے افکار اور انتخاب میں آزاد ہوتا ہے۔ وہ جس کو چاہے منتخب کر سکتا ہے۔ جو اس کے کام کر کے دیتا ہے وہی اس کا اپنا ہوتا ہے، جو اس کے مسائل کو حل کرتا ہے، ووٹر اسی کا ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).