بقر عید سے پہلے سیاسی عید


جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ذوالحج کا مہینہ قریب ہے اور بقر عید کی آمد ہے۔ اس مہینے پوری دنیا سے خوش قسمت مسلمانوں کو بیت اللہ کے حج کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اور حج کے بعد عید الاضحی مسلمان بری عقیدت سے مناتے ہیں۔ اور اس عید پہ سنت ابراہیم نہایت عقیدت سے ادا کرتے ہیں۔ اس عید کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس عید پہ نئے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ خاص مہمانوں ( بکرا، گائے، بیل اور اونٹ) کی بھی آمد ہوتی ہے۔ جو کہ انتہائی مہنگے اور قیمتی مہمان ہوتے ہیں۔ ہاں تو اور قیمتی کیوں نہ ہوں آخر اللہ کے مہمان ہیں اور اللہ کی راہ میں قربان ہوں گے۔ خوب آؤ بھگت تو ہونی ہی چاہیے۔

بقر عید میں تو ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ اس سے پہلے کیوں نہ پاکستان میں آنے والا سیاسی تہوار دیکھ لیا جائے۔ یہ سیاسی میلہ 14 اگست سے پہلے سجے گا۔ اور سیاسی عید کا سماں ہوگا۔ جی ہاں صحیح سمجھے۔ بات ہو رہی ہے 14 اگست سے پہلے ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کی۔ جب الیکشن 2018 میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے لئے خلف برداری کی تقریب منعقد کی جائے گی۔ اس تقریب میں آنے والے مہمان اراکین اسمبلی ہوں گے جو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کا انتحاب کریں گے۔ اور 14 اگست کے بعد یہ مہمان خود بھی حلف لیں گے۔ نئے مہنگے برانڈڈ کپڑوں اور برانڈڈ جوتوں اور قیمتی گھڑیوں کے ساتھ یہ اراکین اسمبلی تقریب میں شرکت کریں گے۔ اور اس سیاسی تہوار کو خوب جوش و خروش سے منائیں گے۔ اور پھر خلف برداری کی تقریب کے بعد یہی اراکین اسمبلی یہ جا وہ جا۔ میں کون؟ تو کون بھئی؟ مجال ہے کہ دوبارہ اسمبلی میں قدم رکھ کر اسمبلی کے صاف و شفاف ماربل کے فرش کو گرد آلود کریں۔ مجال ہے کہ اسمبلی میں قدم رکھ کر اسمبلی کے تقدس کو پامال کریں۔ کورم ہی پورا کرنا ہے نہ کوئی نہ کوئی تو کر ہی دے گا جناب۔ فکر ناٹ۔

ٹھہریے! ایک بات یاد رکھیں کہ 2018 کے الیکشن کے بعد بننے والا پاکستان نیا پاکستان ہے۔ اور یہ سب روایات پرانے پاکستان کی ہے۔ نئے پاکستان میں اس طرح کی روایات؟ نہ نہ نہ۔
پروٹوکول۔ ؟ تو نام بھی مت لینا۔
وزیراعظم ہاؤس۔ ؟ تو بھول ہی جاؤ۔
منسٹر انکلیو۔ ؟ تو ناممکن۔
گورنر ہاوس۔ ؟ تو دیکھنا بھی مت۔
ترقیاتی فنڈز۔ ؟ او بھائی جاؤ اپنا کام کرو۔

نئے پاکستان میں یہ سب روایات تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر آنے والے وزیراعظم جناب عمران خان جو ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ سب کچھ زیادہ نہیں ہوگیا؟ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان سب باتوں میں کہاں تک سچائی ہے؟ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ نئے پاکستان میں آنے والی حکومت کے لوگ تو پرانے پاکستان کے ہی ہیں۔ اس لئے عمران خان کے لئے پاکستان کی مشکلات کے علاوہ پہلی مشکل نئے پاکستان میں پرانے اراکین کی ہے اور دیکھنا اب یہ ہے کہ عمران خان کب تک اراکین اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کا اعتماد قائم رکھ سکتے ہیں۔ کیوں کی یہ وہی اتحادی ہیں جو پچھلی حکومتوں کے ساتھ بھی اتحاد ہی کرتے آئیں ہیں۔ ان کے لئے یہ اتحاد کوئی نئی بات نہیں۔ اور یاد رہے اس اعتماد کے علاوہ ایک مظبوط اپوزیشن بھی ہے جو ٹف ٹائم دینے کے موڈ میں ہے۔ کیونکہ ابھی یہ سب تو صرف ٹریلر ہے پوری فلم تو ابھی باقی ہے۔ اور کتنے کلائمکس آئیں گے ابھی اندازہ نہیں نئی حکومت کو۔

یہ لوگ کتنے آرام سے ہیں بیٹھے ہوئے۔
اگرچہ ہونے کو اک واردات باقی ہے۔ (جمال احسانی)

پھر بھی ایک بات تو واضح ہونی چاہیے کہ نیا پاکستان ہے نئی تبدیلی ہے۔ لہذا اراکین اسمبلی، وفاقی وزرا، اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کے علاوہ پاکستان کا ملکی اور قومی مفاد ہی سب سے اہم ہونا چاہیے۔ اور یہی نئے پاکستان کی خاصیت بھی ہونی چاہیے۔

بقر عید کا تو سب کو انتظار ہے ہی کیونکہ اس دن فیصلہ ہوگا کہ قربانی کے جانور کے گوشت کا کونسا حصہ کس رشتے دار میں تقسیم کیا جائے گا؟ لیکن اس سے پہلے سیاسی عید تو دیکھ لیں جس پر فیصلہ ہوگا کہ وفاقی وزارتوں کا کونسا حصہ کن وفاقی وزراء میں تقسیم ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).