بچہ اپنی خوشی کے لیے پیدا کرنا ہے یا امریکی شہریت کے لیے؟


ورجینیا

مجھے دیسی کھانے کی بھوک لگی تو میں نے اپنی ایک انڈین دوست کو اتنا تنگ کیا کہ وہ ورجینیا میں ڈیلس ایئرپورٹ کے قریب واقع ایک پاکستانی ریستورنٹ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ یہ ریستوران میرے گھر سے 40 منٹ کی مسافت پر ہے۔

اس ریستوران کے انتخاب کی کہانی یہ ہے کہ جب شروع میں واشنگٹن آئی تھی تو دفتر میں ایک ساتھی نے کہا کہ جب بھی دیسی کھانے کا موڈ ہو تو ٹوسو جانا کیونکہ اس سے بہترین کھانا کہی نہیں ملے گا۔ اب یہ ساتھی پلا بڑھا تو برطانیہ میں ہے لیکن خاندان پاکستان سے ہے اور پھر پاکستان میں بھی چار سال رپورٹنگ کر رکھی ہے اور کھانے کا دیوانہ بھی ہے اس لیے اس کی تجویز کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا لیکن ریستوران کے اتنے دور ہونے کی وجہ سے مجھے آٹھ مہینے لگ گئے ہمت باندھتے باندھتے۔ ویسے بھی ٹیکسی کا بل کھانے سے زیادہ تھا۔ لیکن کھانا واقعی اتنا زبردست تھا کہ جیسے گھر کا بنا ہو۔ جیسے ہی داخل ہوئی تو بریانی اور حلیم کی مزیدار خوشبو نے طے کر دیا مجھے کیا آرڈر کرنا چاہیے۔

یہ ایک چھوٹا سا ریستوران ہے، لگ بھگ دس ٹیبل پر مشتمل۔ کاؤنٹر پر جہاں آرڈر دینے گیے وہاں ایک 16 سالہ پاکستانی نژاد لڑکی اور اس کا بھائی کام کر رہے تھے ۔ والدین امریکہ تب آئے جب بچے نو عمر تھے۔ صبح گھر کے بڑے لوگ کام کرتے ہیں اور شام میں بچے ریستوران کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کھانے کی قیمت بھی ڈی سی کے مقابلے میں کم اور کھانا فریش بھی اور دودھ پتی تو بالکل ایسے جیسے میری ماں کے ہاتھوں کی ہو۔

کھانے کی ٹرے لے کر جب ہم اپنی ٹیبل پر واپس پہنچے تو ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھی ایک خاتون کے اس جملے نے توجہ ان کی طرف مرکوز کر دی۔ وہ کہہ رہی تھیں ’اللہ کیٹ جیسی خواتین کا انجام برا ہی کرتا ہے جو اس بے دردی کے ساتھ اسقاط حمل کرواتی ہیں جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔‘

لیکن موصوغ ایسا تھا کہ رہا نہ گیا۔ میری دوست خوش نہ تھی کہ میں اس پر توجہ دینے کی بجائے دوسرے لوگوں کی باتیں سن رہی ہوں اور ویسے بھی دوسروں کی باتیں سننا اچھی بات نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اس خاتون سے پوچھ ہی ڈالا کہ آخر وہ کیٹ پر اتنی خفا کیوں ہیں۔ پہلے ظاہر ہے بات یہاں سے ہی شروع ہوئی کہ وہ پاکستان میں کہاں سے ہیں۔ 35 سالہ فضا پاکستان سے امریکہ 12 برس پہلے آئی تھیں۔ اب دو بچے ہیں۔ شوہر کا اپنا گروسری سٹور ہے۔

فضا ورجیںا میں ایک ڈے کیئر میں کام کرتی ہیں۔ وہاں کیٹ کی دو سالہ بیٹی آتی ہے۔ کیٹ کی طلاق ہو رہی ہے اس لیے وہ اسقاط حمل کروا رہی ہیں کیونکہ سنگل پیرنٹ ہونے کے وجہ سے اتنے وسائل نہیں کہ دوسرے بچے کی دیکھ بھال ہو سکے۔ جب ان کا غصہ کم ہوا تو میں نے پوچھا ’کیا یہ سمجھداری کا فیصلہ نہیں کہ وہ ایک اور جان کو اس دنیا میں لا کر مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی؟ بچہ اگر بھوکا سوئے گا اور تعلیم حاصل نہیں کر پائے گا تو وہ دنیا میں پیچھے رہ جائے گا اور والدین سے نفرت کرے گا۔‘ فضا کا وہی جواب تھا جس کی مجھے توقع تھی ’بچہ اپنا رزق خود لے کر آتا ہے۔‘

وہ ٹرمپ کی حمایتی نہیں لیکن کہنے لگیں ’مجھے ٹرمپ کی ایک بات بہت پسند کہ وہ عورت کا بچہ ضائع کرنے کے خلاف ہے۔‘ میں نے کیٹ کی طرف داری کرنے کی کوشش کی تو فوراً ہی احساس ہوا کہ فضا اس موڈ میں نہیں۔ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی تو فضا نے میری فیملی کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

فضا پریشان تھی کہ آخر شادی کے پانچ سال بعد بھی میں کام کی وجہ سے شوہر کو اکیلا چھوڑ کر امریکہ کیوں آ گئی ہوں۔ انھوں نے مجھے سمجھایا کہ میں فیملی شروع کروں۔ کام نہیں فیملی بنانا عورت کے لیے زیادہ اہم ہے۔ مجھے بھی سمجھ آ گئی کہ میں اپنا نظریہ نہ ہی پیش کروں تو بہتر ہے۔ جاتے جاتے انھوں نے مجھے وہی مشورہ دیا جو ایک مرتبہ نیویارک میں ایک خاتون نے سنہ 2016 کی الیکشن کوریج کے دوران دیا۔ وہ بولیں ’آپ کا ابھی تین سال کا ویزہ ہے، شوہر کو بولو امریکہ آئے اور ایک بچہ پیدا کرو۔ اسے پیدا ہوتے ہی امریکہ کی شہریت مل جائے گی اور تم لوگوں کو بھی جب وہ بڑا ہو جائے گا۔‘

میں اور میری دوست ورجینیا سے ڈی سی واپسی کا سفر طے کرتے ہوے یہی پہلی سلجھا رہی تھی کہ آخر بچہ امریکی شہریت کے لیے پیدا کرنا ہے یا اپنی خوشی کے لیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp