نئی حکومت کو حقیقت پسندانہ طور طریقے اپنانا ہوں گے


صدر پاکستان نے نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی سمری پر 13 اگست کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان کی حلف برداری اور نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد لیڈر آف دی ہاؤس کے لئے ووٹنگ ہوگی۔ تحریک انصاف نے دعویٰ بھی کیا ہے اور اس میں کسی شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ عمران خان آسانی سے نئے وزیر اعظم منتخب ہوجائیں گے۔ اپوزیشن اگرچہ مقابلے میں اپنے امید وار اتارے گی لیکن اس کی حیثیت محض رسمی ہوگی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں یک جہتی کی کمی ہے اور کسی ایک مقصد کے لئے کام کرنے کے عزم کا اظہار سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس کا مظاہرہ دو روز قبل الیکشن کمیشن کے باہر مظاہرہ کے دوران بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے غیر واضح طرز عمل کی وجہ سے بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اپوزیشن قومی یا پنجاب اسمبلی میں کسی بڑی مزاحمت کا مظاہرہ کر سکے گی۔ اس کے برعکس اب یہ امکان بھی کم ہو گیا ہے کہ اپوزیشن قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کروانے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

حکومت سازی کے لئے عمران خان اور تحریک انصاف کی کوششیں اس ملک کی سیاسی روایت کے مطابق ہی ہیں گو کہ انہیں اس بارے میں تنقید کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے کہ تحریک انصاف غیر روائیتی سیاسی کلچرمتعارف کروانے کی دعویدار رہی ہے۔ پہلے اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون و اشتراک کی حکمت عملی اور انتخاب کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی کوششوں سے اس تاثر کو نقصان پہنچا ہے کہ عمران خان کوئی حقیقی سیاسی تبدیلی لانے کے اہل ہیں۔ تاہم اس کا حتمی جواب عمران خان کے حلف اٹھانے اور پہلے چند ماہ کے دوران کئے جانے والے اقدامات کے بعد ہی سامنے آسکے گا۔

نئی حکومت کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف گزشتہ پانچ برس کے دوران کئے گئے وعدے اور لگائے گئے نعرے اس کے راستے کی دیوار بنیں گے تو دوسری طرف ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات اور ان سے متعلق مسائل منہ پھاڑے نئی حکومت کے منتظر ہوں گے۔ کسی بھی حکومت سے خواہ اس نے انتخاب جیتنے کے جوش میں کتنے ہی غیر حقیقت پسندانہ مالیاتی اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہو، یہ توقع عبث ہو گی کہ وہ اکیس کروڑ آبادی کے ملک میں جہاں قومی وسائل ضرورتوں سے کہیں کم ہیں، کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے نئی حکومت کو خود بھی اپنے ووٹروں اور حامیوں کو حقیقت احوال سے آگاہ کرنے اور اپنے شدت پسندانہ بیانیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تاہم عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اگر پاپولسٹ نعروں کو جاری رکھا اور ملک کو دررپیش مسائل کا سارا بوجھ سابقہ حکومتوں پر ڈالتے ہوئے خود کوماضی کے فیصلوں کا اسیر اورمجبور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو اس سےنئی حکومت اپنے وعدوں کے حصار سے جان نہیں چھڑا پائے گی۔ البتہ اگر اس نے سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے کئے ہوئے وعدوں اور حقیقی صورت حال میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی اور دوسروں پر الزام تراشی جاری رکھنے اور ملک لوٹ کر کھاجانے کے دعوؤں سے گریز کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عوام کو سچ کا سامنا کرنے کےلئے تیار کیا تو ملک میں بہتر سیاسی ماحول بھی پیدا کیا جاسکے گا اور عوام بھی حکومت کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے تعاون اور صبر کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔

تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک کے عام لوگ یا وہ پونے دو کروڑ ووٹر جنہوں نے پارٹی کے حق میں رائے کا اظہار کرکے اسے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا ہے ، تحریک انصاف سے معجزوں کی توقع نہیں کریں گے۔ ملک کے شہریوں کی اکثریت قومی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عالمی سطح پر ابھرنے والے حقائق سے بھی آگاہ ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے لیڈروں کا اصل مسئلہ اس کے وہ شدت پسند خیر خواہ یا حامی ہوں گے جو عمران خان کی صورت میں کسی سپر ہیومن کو دیکھتے ہیں اور انہیں یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ عمران خان اگر ورلڈ کپ جیت سکتا ہے اور شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسا منصوبہ مکمل کرکے اسے کامیابی سے چلا سکتا ہے تو وہ ملک کو بھی چٹکی بجاتے خوشحال مملکت بنا سکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے سب سے پہلے عمران خان کو خود اس نرگسیت پسندانہ رویہ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ ادراک کرسکیں کہ کرکٹ میچ جیتنا یا کوئی فلاحی منصوبہ بنانا ملک چلانے کے مقابلے میں مختلف اور حقیر منصوبے ہیں۔ اپنی کم مائیگی کا احساس کئے بغیر کوئی بھی انسان مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ رویہ اختیا رکرتے ہوئے ہی تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں کو یہ باور کروایا جاسکے گا کہ ملک کے کثیر الجہتی مسائل کا سبب صرف سیاست دانوں کے لالچ یا بد عنوانی کو قرار دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کا سرا اگر ایک طرف نو آبادیاتی نظام کی باقیات میں ملتا ہے تو دوسرا آزادی کے بعد فیصلوں کا اختیار عوام کے نمائیندوں کو خود مختارانہ فیصلے کرنے سے روکنے کی غیر آئینی اور غیر اخلاقی کوششوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

ملک میں ایک ایسا مزاج بنا لیا گیا ہے اور گزشتہ پانچ برس کی احتجاجی سیاست کے دوران عمران خان خود اس مزاج سازی کا حصہ بھی رہے ہیں جس کے تحت فوج مقدس گائے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور کسی نہ کسی صورت یہ مباحث سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فوج نے اگر سیاسی حکومتوں کو چلتا کیا تو یہی وسیع تر قومی مفاد میں تھا۔ قومی مفاد کی اس تشریح کو درست ثابت کرنے کے لئے قومی مسائل کا بوجھ سیاست دانوں پر ڈالا جاتا رہا ہے اور اسی بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے بلاتخصیص ملک کے سب سیاست دان ایک ایسے نظام کا حصہ بن چکے ہیں جسے جمہوری کہا جاتا ہے لیکن جو آمرانہ طریقوں اور غیر جمہوری اداروں کی مرضی و منشا سے کام کرتا ہے۔ عمران خان کو اگر تاریخ میں اپنا مقام بنانا ہے تو انہیں اپنے حامیوں کو ملکی نظام کی اس کجی کے بارے میں مطلع بھی کرنا پڑے گا اور اس کی درستی کے لئے سیاسی اپوزیشن کو دشمن سمجھنے کی بجائے فریق بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔

ملک کی مالی صورت حال کے حوالے سے نامزد وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ عوام تحریک انصاف کی حکومت سے فوری ریلیف کی توقع نہ کریں۔ ملک میں برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت عوام کو فوری ریلیف دے کر دراصل سیاسی حمایت اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر بھٹو امدادی اسکیم متعارف کروائی اور مسلم لیگ (ن) نے انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ ادا کرکے عوام کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ ان کو سہولتیں بہم پہنچانا چاہتی ہے۔ سیاسی ضرورتوں اور نظام کے دباؤ میں ماضی کی ہر حکومت کو اپنے دور میں اس قسم کے عبوری اور غیر پیداواری فیصلے کرنے پڑے ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی اگر اسی راستے کو اپنایا تو اس سے کسی بھی قسم کی پائیدار تبدیلی واقع ہونے کا امکان نہیں ہے۔

بیمار معیشت کی اصلاح کا کام صرف بچت کرنے اور آمدنی میں اضافہ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے سے انکار اور بھاری بھر کم سیکورٹی سے گریز کرکے داد و تحسین تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ملکی مالی مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے ناپسندیدہ سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ فیصلے قرض دینے والے اداروں کے دباؤ پر ہر حکومت کو کرنے پڑتے ہیں لیکن اپوزیشن ہمیشہ انہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر کے حکومتوں سے غلط مالیاتی فیصلے کروانے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر اور اسلامی ترقیاتی بنک سے چار ارب ڈالر نئے قرضے لینے کے اقدام کرے گی۔ یہ قرضے مالی اور سیاسی شرائط کے بغیر نہیں مل سکیں گے۔ عوام کو ان شرائط کے بارے میں دھوکہ میں رکھنے کی بجائے عمران خان کو اپنی مقبولیت اور دیانتداری کی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو یہ بتانا چاہئے کہ ان قرضوں کے حصول کے لئے ملک کو کون سی قربانیاں دینے اور مالی بچت کے کون سے اقدام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

متوقع وزیر خزانہ ایک طرف عوام کو ملکی معیشت کے بارے میں حقیقت پسند بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کے لئے نئی حکومت ایک ٹاسک فورس قائم کرے گی۔ بیرون ملک پاکستانی شہریوں اور سیاست دانوں کے اثاثوں کے بارے میں قیاس آرائیوں پر مبنی باتیں برس ہا برس سے ملک کے عوام کو سنائی جارہی ہیں۔ اسد عمر و زیر خزانہ بننے سے پہلے ہی اگر اس گمان کو سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو ایک نیا لالی پاپ دینے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ نئی حکومت کی حقیقت پسندی کے بارے میں ایک بری خبر ہے۔ ملک کے مالی معاملات ٹھیک کرنے کے لئے سیاست سے بالا ہو کر اقدام اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر پاکستانی شہریوں کی کثیر ناجائز دولت سوئس بنکوں یا کسی دوسرے ملک میں موجود ہے تو اس کے بارے میں حقائق جمع کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ممکن ہو تو اسے واپس حاصل کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے ۔لیکن اس معاملہ کو اگر سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور اپنے سیاسی مخالفین پر الزام لگانے کے لئے استعمال کیا گیا تو اس سے کوئی قومی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ملک میں برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت ناجائز طور سے ملک سے لوٹی جانی والی دولت کو واپس لانا چاہے گی لیکن اس معاملہ کو سیاسی نعرہ بنا کر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہر ملک اپنے ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور دنیا کی کسی بھی حکومت کے لئے ثابت شدہ وسائل کو بھی دوسرے ملکوں سے لانا جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہو گا۔ تحریک انصاف کو کامیاب حکومت چلانے کے لئے عوام کو رجھانے والے نعروں سے گریز کرنے کی ضرورت ہوگی۔

ملکی مسائل سے نمٹنے کے لئے وسیع تر سیاسی تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی تعاون کے ذریعے سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری اداروں کو آئین کی حدود میں ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اپوزیشن کو بھی منتخب حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بخوبی ان ہتھکنڈوں کا پتہ ہے جو منتخب حکومتوں کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لئے اختیار کئے جاتے رہے ہیں ۔ یہ دونوں پارٹیاں ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف آلہ کار بن کر خود اپنا اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بنی ہیں۔ اب اگر انہوں نے اپنے اپنے طور پر یا مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایسے ہی منصوبہ کا حصہ بننے کی کوشش کی تو یہ نہ جمہوریت کی خدمت ہوگی اور نہ ہی اس سے قوم کا بھلا ہوگا۔ تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت اس سلسلہ میں پہل کرے اور خیر سگالی کا مظاہرہ بھی کرے۔ بصورت دیگر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے کا معاملہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali