مجبور و محکوم کی سرگزشت


دنیائے فانی میں انسان کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں جبر کا ہتھیار ریاستوں کا نمائندہ رہا ہے۔ اگر ریاستی جبر کو قوم پرستی کی عینک سے دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاستوں نے بڑبے پیمانے پر انسانوں کی نسل کشی کے اقدامات کے ذریعے تاریخ کے الٹ پھیر میں اپنی جگہ بنائی اور آج قوم پرستی سمیت ان کا ہر طاقتور بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ ایسے ہی جبر و تشدد سے نبرد آزما ایک داستان پڑھنے کا اتفاق ہوا تو سوچا کہ اپنے قارئین تک بھی اس کی تفصیلات پہنچاؤں۔

The diary of a young girl
By
Anne frank

محض روز و شب کی داستان نہیں، اس میں ایک پوری تہذیب کا قتل عام موجود ہے۔ اس داستان میں کھو کر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اجتماعی گناہوں کا کفارہ اگر کسی قوم پر مسلط کر دیا جائے تو کس طرح ایک نئی نفسیات کا جنم ہوتا ہے اور انتقام پسند نظریات کا خمیازہ کس طرح زندگیوں کو تباہ کردیتا ہے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایسی بہت سی کہانیاں سامنے آئیں جن کی روشنی میں مہذب انسانیت کی پوری تاریخ ملاحطہ کی جاسکتی ہے۔ آج جو اقوام طلبا کو اپنے ملک میں وظیفے دیتے نہیں تھکتیں، ذرا ان کا ماضی ملاحظہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے بھی بربریت سے بھرپور اجتماعی زندگی گزاری ہے۔

ہٹلر کے جنگی جنون اور بنی نوع انسان کی ایک قوم سے دشمنی نے جرمنی کو عالمی قوت سے زیادہ ایک وحشی قوم بنا دیا تھا لہذا اس ڈائری میں جو منظر کشی کی گئی ہے وہ حقیقت ہے کیونکہ این فرینک کو اس کی بارہویں سالگرہ پر تحفے میں ملنے والی ڈائری میں پوری تہذیب کا معاشرتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی مقاطعہ دکھایا گیا ہے۔ خوابوں اور رنگوں کی عمر میں اگر کسی کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کی قوم کو اپنے آبائی ملک میں ہی ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں سائنسی بنیادوں پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے اقداماتکیے جارہے ہیں تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک معصوم ذہن پر کیا گزرتی ہو گی؟

انسانی حیات نے اپنے ہی ہاتھوں جن مظالم کا مشاہدہ کیا ہے، ان میں نسل کشی سے بڑا عذاب کوئی نہیں اور پولینڈ سمیت ہر مشرقی یورپ کے ملک کو ہٹلر کی توسیع پسندانہ ذہنیت کا سامنا کرنا پڑا تو یہ بات اور بھی واضح ہو گئی کہ اگر نفرت کا اجتماعی سطح پر اظہار ہو تو یہ نسلوں تک کو معذور کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ 2 سال تک ایک دفتر کے تنگ کمرے میں اپنے خاندان کے ساتھ چھپی رہنے والی معصوم لڑکی کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کچھ یوں ہیں

20 جون 1942
کاغذ میں انسان سے زیادہ قوت برداشت ہوتی ہے

9 جولائی 1942
جب مارگوٹ کو جرمن فوج کی طرف سے بلایا گیا تو ہم نے تہہ خانے میں جانے کی تاریخ بدل ڈالی اور 16 جولائی کے بجائے آج ہی یہاں آنے کا فیصلہ کر لیا

7 نومبر 1942
مجھے لگتا ہے خدا نے مجھے آزمانے کا فیصلہ کر لیا ہے، ابھی بھی اور مستقبل میں بھی

11 نومبر 1943
میرے عزیز ترین قلم کی یاد میں، جس نے ہمیشہ میرا رشتہ تم سے جوڑے رکھا

1 اگست 1944
مجھے سمجھ نہیں آتا، میں کیا ہوں؟ میری شخصیت بھی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔

2 برس تک اپنی ڈائری کو اپنا رازدار بنانے والی باہمت لڑکی اس صفحے کے بعد اس لئے خاموش نظر آتی ہے کہ اگلی صبح پڑنے والا چھاپہ اس کے پورے خاندان کو ایک جنونی شخص کی قید میں لے گیا جہاں نہ صرف اس نے پوری تاریخ کا قتل عام دیکھا بلکہ قاتلوں کے اوزار مقتول سے بدلتے بھی دیکھے اور یوں ایک عام سی ڈائری لازوال اہمیت اختیار کر گئی۔

این فرینک کی اس خودنوشت کو شائع کروانے میں اس کے والد کا کردار اہم رہا جو نازیوں کی قید سے بچنے والے چند خوش نصیبوں میں شامل تھے۔ اس ڈائری کو ملنے والی عالمی پذیرائی نے اس بات کا ثبوت دیا کہ انسان امن پسند ہی ہوتا ہے اور اگر اس کے حکمران اپنی غلطیوں کا کفارہ اس کے سر پر مسلط نہ کر دیں تو بہت سی مشکلات بنی نوع انسان سے دور رہیں گی۔ آج ہٹلر کہیں نہیں ہے، جب کہ ہر مظلوم کو این فرینک کا نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے اور آخر مارٹن نیمولر کی نظم ہر امن پسند مگر بے عمل انسان کو جنجھوڑتی ہے کہ

پہلے پہل وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے،
میں چپ رہا، میں سوشلسٹ نہیں تھا
پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کے پیچھے آئے،
میں چپ رہا، میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا
پھر وہ یہودیوں کے تعاقب میں آئے،
میں چپ رہا، میں یہودی نہیں تھا
پھر وہ مجھے لینے آ گئے،
تب تک سناٹا مکمل ہو چکا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).