بھارتی مسلمانوں میں تعلیم: ہم مر گئے ہیں اور ہمیں اس کی خبر نہیں


اچھا ایسا کرتے ہیں کہ کچھ ذمہ دار مسلمانوں کو ایک ایک سادہ ورق دے کر کہتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے کچھ اہم مسائل کی فہرست بناؤ۔ اس فہرست میں کون کیا لکھے گا پتہ نہیں لیکن اگر آپ نے غلطی سے مجھے بھی پرچہ تھما کر لکھوانا چاہا تو میں صرف ایک ہی چیز لکھوں گا اور وہ ہے تعلیمی پسماندگی۔ بہت سے مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارے سامنے موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی سنگینی کا احساس ہمیں نہیں ہو پاتا۔

بھارتی مسلمانوں کی تعلمی میدان میں بےحد خراب صورتحال انہیں میں سے ایک ہے۔ سنگینی کا احساس نہ ہونے کی بات میں نے اس لئے کہی کہ اگر مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ہمیں واقعی خیال ہوتا یا یوں کہوں کہ ہم نے تعلیمی بدحالی کو واقعی کوئی مسئلہ مانا ہوتا تو شاید آج کوئی خطبہ جمعہ ایسا نہ چھوٹتا جہاں ہر ہفتہ لوگوں کو تعلیم کی طرف توجہ دینے کی تاکید نہ کی جاتی لیکن المیہ وہی ہے جو پروین شاکر بہت پہلے کہہ چکی ہے:
نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون

بھارت میں مسلمانوں کی تعلمی تباہ حالی کا اندازہ لگانے کے لئے کچھ نکات پر توجہ فرمائیے۔ حکومت نے 2016/17 کے لئے اعلیٰ تعلیم کا ایک جائزہ شائع کیا۔ اس کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل زیر تعلیم طلبہ میں مسلمانوں کی نمائندگی چار اعشایہ نو فیصد ہے جو کہ دلتوں اور قبائل سے بھی کم ہے۔ دلتوں کی نمائندگی 14 اعشاریہ 2 فیصد اور ایس ٹی کی نمائندگی 5 اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندگی 34 اعشاریہ 4 فیصد ہے۔ آسانی سے سمجھنے کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہر بیس میں سے صرف ایک طالب علم مسلمان ہے۔ اعلیٰ تعلمی اداروں میں مسلمان طلبہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دلت اساتذہ کی تعداد 8 اعشاریہ تین فیصد ہے جو کہ مسلمانوں کے مقابلے تقریبا دوگنی ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کے اساتذہ کی تعداد مسلمان اساتذہ کے مقابلے تقریبا 8 گنا زیادہ ہے۔

2014 میں فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے تمام 640 اضلاع میں ایک سروے کیا جس نے پایا گیا کہ ملک میں 60 لاکھ 64 ہزار کے لگ بھگ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں مسلمان بچوں کی تعداد تقریبا 15 لاکھ 57 ہزار ہے مطلب اس ملک میں اسکول نہ جانے والا ہر چوتھا بچہ مسلمان ہے۔ باقی تین میں دیگر تمام مذاہب اور برادری سے تعلق رکھنے والے بچے شامل ہیں۔ 2011 میں ہوئی مردم شماری کے جنس اور مذہب کی بنیاد پر تعلیم سے متعلق اعداد و شمار 2016 میں جاریکیے گئے تھے۔ ان کے مطابق ناخواندہ افراد میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ملک کے کل ناخواندہ افراد میں سے 42 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ یعنی ملک کا ہر ڈھائی واں ناخواندہ شخص مسلمان ہے۔

خواندگی کے معاملے میں مسلمانوں کی حالت کتنی پٹی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ بھارت کی دیگر اقلیتوں کے مقابلے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح خطرناک حد تک کم ہے۔ عیسائیوں میں خواندگی کی شرح جہاں 74 اعشاریہ 3 فیصد، بدھسٹوں کی 71 اعشاریہ 8 فیصد اور سکھوں کی 67 اعشاریہ 5 فیصد ہے وہیں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح صرف 57 اعشاریہ 3 فیصد ہے۔ اب اسے ملک کے اوسط شرح خواندگی کے سامنے رکھئے تو ملک کی مجموعی شرح خواندگی 74 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یعنی ملک کے ہر چار میں سے تین شہری خواندہ ہیں جبکہ مسلمانوں میں ہر چار میں سے بمشکل دو مسلمان ہی خواندہ ہیں۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت میں خواندگی کا پیمانہ کوئی اعلیٰ تعلیم نہیں بلکہ صرف معمولی لکھنا پڑھنا جاننے والا بھی خواندہ مانا جاتا ہے۔

فروری 2018 میں اقلیتی امور کے مرکزی وزیر نے ایک بیان میں بتایا کہ مسلمان بچیوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ تقریبا 72 فیصد ہے۔ مطلب یہ کہ اسکول میں داخلہ لینے والی 100 میں سے 72 لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہیں۔ تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں میں بھی مسلمان کسی سے پیچھے نہیں۔ ملک بھر میں ڈراپ آؤٹ ریٹ تقریبا 13 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ ساڑھے سترہ فیصد سے زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ جو کوئی بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے ان میں سے ہر چھٹا بچہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔

یہ وہ جھلکیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں کیا حالت ہے؟ اب ذرا ذمہ داروں کے رویے پر آ جائیے۔ گننے بیٹھیے تو آپ تھک جائیں گے لیکن وہ فتوے نہیں ختم ہوں گے جن میں کبھی اشاروں میں تو کبھی سیدھے سیدھے فرما دیا گیا ہے کہ ماں باپ پر اپنے بچوں کو بس دینی تعلیم دلانا ہی فرض ہے۔ دنیاوی تعلیم دلانا ان کی ذمہ داری کا حصہ نہیں۔ جمعہ کی نماز میں مسلمان جمع ہوتے ہیں لیکن کتنے ایسے امام و خطیب ہیں جو نمازیوں کو تاکید کریں کہ وہ اپنے علاقے میں ایک بھی بچے کو اسکول سے محروم نہ رہنے دیں۔

مت بھولئے کہ ابھی بات معیاری تعلیم کی تو ہو ہی نہیں رہی یہاں تو صرف حرف شناسی کے لئے ہی اتنے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔ فلسطین، عراق، ایران، یمن اور شام پر احتجاجی کے لئے دھواں دار تقریریں کرنے والے علما، جلوس نکالنے والی ملی تنظیمیں، رقومات شرعیہ اور عطیات جمع کرنے والے ذمہ دار یہ سب کہاں ہیں؟ ایک بات اور ذہن میں رہے کہ ان حالات میں انفرادی یا بکھرے اقدامات سے کام نہیں چلنے والا بلکہ اجتماعی طور پر تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنا ہی اکلوتا راستہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی مذہبی قیادت سے کس زبان سے فریاد کرنی پڑے گی کہ ان کا دل پسیچ جائے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter