انتخابات 2018؛ کامیابیاں اور چیلنج


ملک میں عام انتخابات کے کام یاب انعقاد نے افواہوں، قیاس آرائیوں اور مفروضوں کا دم توڑ دیا۔ ایک منتخب حکومت نے آئینی مدت پوری کی، اور ملک میں آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق اقتدار کا پرامن انتقال ہونے کو ہے۔ یہ ملکی تاریخ کے گیارہویں جب کہ مشرف آمریت کے بعد تیسرے عام انتخابات تھے۔ منتخب حکومتوں نے مسلسل دو بار پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔ فروری 2008 کے انتخابات، پھر مئی 2013 اور اب جولائی 2018 کے عام انتخابات کی درمیانی مدت میں ملک نے سیاسی تحریکیں، احتجاج، دو منتخب وزرائے اعظم کی نا اہلی، صوبوں اور وفاق کے مابین کشمکش، گورنر راج اور دیگر سیاسی و انتظامی اتار چڑھاوُ تو ضرور دیکھے، تاہم ملک مجموعی طور پر سیاسی استحکام کی جانب بڑھا۔

اس دہائی میں نہ تو مارشل لا نافذ کیا گیا نہ ہی کوئی ایمرجنسی۔ دوسرے یہ کہ انتخابات 2018 سے متعلق مقامی و بین الاقوامی مبصرین کی آرا ہیں کہ یہ انتخابات ماضی کی نسبت صاف اور شفاف طریقہ کار سے منعقد کیے گئے۔ اگر چہ کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعتیں الیکشن میں فوج کے کردار کو غیر معمولی قرار دے رہی ہیں اور ان جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلانات میں غیر معمولی تاخیر پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ الیکشن پر تحفظات کی نوعیت 2013 کے انتخابات پر اٹھنے والے تحفظات سے کسی قدر مختلف ہے، تاہم الزامات تکنیکی اور پے چیدہ ہیں۔

نو منتخب اسمبلی کو الیکشن کمیشن کے اختیارات، الیکشن میں فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے کردار، الیکشن عملے کی تربیت و غیر جانب داری اور انتخابی ضابطہ اخلاق سمیت دیگر امور پر قومی مزاج سے ہم آہنگ، بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق اور قابل عمل قانون سازی کرنا ہو گی۔ ماضی کی نسبت انتخابات 2018 کے بہتر انعقاد کا سہرا گزشتہ اسمبلی کے سر ہے، جس نے انتخابی اصلاحات متعارف کرائیں۔ اگر چہ یہ اصلاحات الیکشن 2013 کے بعد اٹھنے والی ایک تحریک کی مرہون منت ہیں۔ اب کی بار انتخابی اصلاحات تحریک کی یہ سرکردہ جماعت حکومت بنا رہی ہے تو یہ توقع کی جانی چاہیے، کہ حکومتی اور اپوزیشن بینچ مزید ضروری انتخابی اصلاحات کسی شورش کے بغیر ہی اسمبلی فلور پر آئین کا حصہ بنائیں گے۔ اگر ایسا ہی ہوا تو بلاشبہ یہ عمل سیاسی بردباری کا ایک شاہکار اور جمہوریت کے ارتقا کی ایک عمدہ علامت ہو گا۔

مشاہدے میں آنے والی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ماضی کی روایت کے برعکس مبصرین اور حکومت سازی کے عمل میں مصروف جماعت کے مخالفین کی جانب سے حکومت کے آئینی مدت پوری کرنے سے قبل گھر لوٹ جانے کی پیش گوئیاں نہیں کی جا رہی ہیں۔ الیکشن 2008 کے بعد قائم ہونے والی مخلوط حکومت سے متعلق ایسی پیش گوئیاں شدت سے کی جاتی رہیں۔ بعد ازاں الیکشن 2013 کے بعد قائم ہونے والی حکومت عددی لحاظ سے مضبوط تھی تاہم اس کے باوجود اپوزیشن تحریک کے باعث حکومت کے گھر لوٹنے کی چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں۔

الیکشن 2018 کے نتائج کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ نئی قائم ہونے والی حکومت بھی مخلوط حکومت ہی ہو گی، حکومتی جماعت کا وفاق میں حکومت کا یہ پہلا تجربہ ہو گا، جسے دو تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود حکومت کے جلد لوٹ جانے جیسے خطرات کی پیش گوئیاں نہ ہونا اس امر کو واضح کرتا ہے ملک کی مجموعی سیاسی فکر اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، عام انتخابات وقت ہی پر منعقد ہونے چاہئیں اور عوامی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔

الیکشن 2018 میں حصہ لینے والی جماعتوں کی انتخابی مہم مجموعی طور پر عوامی مسائل کے حل پر مرکوز رہی۔ ماضی کی نسبت الیکشن مہم میں عوامی مسائل پر بحث میں اضافہ ہوا۔ پہلی بار پانی کے بحران پر سنجیدہ بات چیت کی گئی۔ اگر سیاسی جماعتوں کی مہم میں عوام کو درپیش مسائل پر بحث اور نتائج کے مابین نسبت نکالی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس جماعت نے جس قدر عوامی مسائل پر بات کی اور مسائل کا حل پیش کیا اسے اسی قدر کام یابی ملی۔ یہ مفروضہ (ہائپو تھیسس) سائنسی بنیادوں پر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کا مسائل پر بات کرنا اور ووٹرز کا کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینا بھی ملک میں جمہوریت کے ارتقا کے لیے خوش آیند ہے۔ اگر چہ کام یابی میں حسب روایت قابل انتخاب امیدواروں یعنی الیکٹیبلز اور برادریوں، دھڑوں کا بھی بنیادی کردار رہا۔ انتخابات 2018 میں الیکٹیبلز نے ایک بار پھر اپنی حیثیت منوائی ہے۔ تاہم تیزی سے بدلتی ملکی سیاست، عوامی امنگوں اور رحجانات میں تبدیلی اور بدلتے سماجی حقائق کے باعث آنے والوں برسوں میں الیکٹیبلز کا طرز سیاست بھی تبدیل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ تاہم الیکٹیبلز کی سیاست کے مکمل خاتمے سے متعلق پیش گوئی قبل از وقت ہو گی۔

سیاست میں اس قدر بڑی تبدیلی طویل عرصے تک جمہوری عمل کے تسلسل، جمہوری اقدار کے فروغ اور سیاسی و سماجی ارتقا سمیت دیگر ضروری عوامل سے مشروط ہے۔ ایک دہائی سے جڑیں پکڑتا سیاسی استحکام اس سمت ابتدائی پیش رفت ضرورہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات میں کئی جانے پہچانے الیکٹیبلز کو نسبتاً غیر معروف سیاسی چہروں اور نوجوان امیدواروں سے شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

حالیہ انتخابات کے نتائج نے زبان، علاقے اور مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی کی خبر بھی سنائی ہے۔ تاہم اس خبر کو مبصرین مختلف زاویوں سے پرکھ رہے ہیں۔ ایک طرف الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت ان جماعتوں کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ عوام نے علاقائی ایجنڈے پر قومی ایجنڈے کو فوقیت دی ہے۔ لسانی و علاقائی بنیادوں پر سیاست کو رد کر کے قومی سیاست کی سوچ کی حامل جماعتوں کو ترجیح دی گئی۔ اب یہ ذمے داری نو منتخب حکومت کے سر ہے کہ وہ حقیقت جان کر محرکات کا جائزہ لے۔ مینڈیٹ چوری ہونے کا مطلب ان قومیتوں اور طبقات کی آواز دبانے کی کوشش ہو گا، جو کہ ریاست کے لیے نیک شگون نہیں۔ اگر حقیقتاً علاقائی ایجنڈا مسترد کیا گیا ہے، تو وفاق اور صوبائی حکومتیں اس عوامی فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے والے عوام کا ہاتھ تھامیں۔

اس موضوع پر بحث میں یہ پہلو انتہائی قابل ذکر ہے کہ وفاق کے زیر اثر قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کی قانون سازی کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا۔ یہ امر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ پشتونوں کا فاٹا اصلاحات کا طویل عرصے سے زیر التوا مطالبہ پورا ہونے اور قبائلی علاقوں کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے بعد نہ صرف پشتون نیشنلسٹ جماعتوں بلکہ پشتون علاقوں میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی عوامی مقبولیت کم ہوئی ہو! ان علاقوں میں کسی حد تک امن لوٹنے سے سماجی حقائق بدلنے کے اثرات سیاسی رویوں پر مرتب ہوئے ہوں، اور عوام نے وفاق ہی کو مسائل کے حل کا منبع سمجھتے ہوئے علاقائی جماعتوں کو رد کیا ہو۔

دوسری جانب یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ فاٹا کی مرکزیت کے علاوہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کا اہم حصہ بننے اور نئے صوبے کے قیام کی تحریک کے زور پکڑنے سے بھی محروم قومیتوں نے مرکز کی جانب مائل ہونے کو ترجیح دی، تاہم اس حوالے سے حتمی رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ اُدھر انھی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے خلاف احتجاج کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اس احتجاج کو اداروں اور میڈیا کی جانب سے نظر انداز کرنا بلاشبہ باعث تشویش امر ہے۔

نو منتخب حکومت کو ان تمام عوامل سے نمٹنا ہو گا۔ اور یقیناً سیاسی نوعیت کے ان مسائل کے حل کے لیے جہاں نئی حکومت کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہے، وہیں اسے کان اور آنکھیں بھی کھلی رکھنا پڑیں گی۔ تا کہ حکومت خوش اسلوبی سے آئینی مدت پوری کر سکے۔ سیاسی جماعتوں میں بڑھتا خلیج، کسی طور خوش آیند نہیں۔ حکومت کو مخالف جماعتوں کے تحفظات دور کرنے اور ابہام کی کیفیت ختم کرنے کے لیے بات چیت کا ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو الیکشن مہم کے لب و لہجے اور بیان بازی کو آیندہ الیکشن تک رکھ چھوڑ کر پارلیمنٹ میں بات چیت سے مسائل حل کرنے کا جمہوری راستہ اپنانا چاہیے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیسی کسی طور کار گر ثابت نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).