’ایکس ‘ کی آخری خواہش (مکمل کالم)


میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’ایکس‘ سے میری دوستی تھی لیکن ہمارا اچھا تعلق ضرور تھا۔ مہینے میں ایک دو بارہماری ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ اُس ملاقات میں ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے، بحث کرتے، اپنی زندگی کے تجربات ایک دوسرے کو سناتے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ کئی سال چلتارہا لیکن پھر اچانک ایک حادثہ ہو گیا۔ میں اُس حادثے کے بارے میں بھی بتاؤں گا مگر پہلے میں آپ کو ایکس کا کچھ تعارف کروا دوں۔ ’ایکس ‘جدیددور کا انسان تھا، یوں سمجھیئے کہ جیسے اکیسویں صدی کا کوئی رول ماڈل، مادی ترقی کا دلدادہ، دنیاوی آسایشوں کا آرزو مند۔ وہ ہر لمحہ زندگی میں آگے بڑھناچاہتا تھا، کہیں رُک کر سانس لینا اُس کے مسلک میں نہیں تھا، وہ کہتا کہ اگر میں کہیں رکا تو باقی لوگ مجھ سے آگے نکل جائیں گے اور یہ مجھے گوارا نہیں۔ وہ دوسروں کو روند کر آگے بڑھنے کا قائل تھا۔ اِس آپ یہ نہ سمجھیں کہ ’ایکس‘ کوئی سفاک شخص تھا، ہر گز نہیں، وہ بالکل عام آدمیوں جیسا تھا، لیکن جس طرح عام آدمی بھی اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی قربانی سے نہیں چُوکتا اسی طرح ایکس کا موقف بھی یہی تھا کہ اگر اپنی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہو تو اسے دور کرنے کے لیے بعض اوقات کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے۔ البتہ یہ بات اُس نے کبھی کھُل کرنہیں بتائی تھی کہ زندگی میں ایسا مرحلہ کتنی مرتبہ آیا کہ اسے کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ قناعت پسندی، سادگی، روحانی خوشی اور اِس نوع کے تصورات سے اسے چِڑ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو خود تو مالی آسودگی حاصل کرلیتے ہیں مگر دوسروں کو قناعت پسندی کی افیون کا عادی بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایکس کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی تھیں اِس لیے مجھے اُس کی صحبت میں کبھی بوریت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی ترقی کی داستان ایسے انداز میں سناتا کہ بندہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔

سکول کے زمانے میں ایکس کوسائیکل چلانے کا بہت شوق تھا، اُس کے کچھ ہم جماعت سائیکل پر سکول آتے تھے جنہیں وہ بہت رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اُس نے اپنے ابا سے فرمایش کی، باپ نے اسے سائیکل لے دی۔ ایکس کی تو گویا عید ہو گئی۔ وہ اب روزانہ سائیکل پر سکول آنے جانے لگا۔ گھر کے کام بھی بھاگ بھاگ پر سائیکل پر کرتا، بہانے بہانےسے سائیکل نکالتا اور گھومنے نکل جاتا۔ اُس سائیکل نے گویا ایکس کی دنیا ہی بدل دی، اسے یوں لگا جیسے اسے زندگی میں اب کبھی کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوگی۔ مگر کچھ ہی دنوں میں وہ اِس سائیکل سے بور ہو گیا اور یہ بوریت بلا وجہ نہیں تھی۔ ہوا یہ کہ ایکس کی دیکھا دیکھی اُس کے ایک ہم جماعت نے بھی نئی سائیکل خریدلی مگر یہ سائیکل سپورٹس ماڈل تھی جبکہ ایکس کی سائیکل دیسی قسم کی تھی۔ اِس سائیکل نے ایکس کو مرجھاکر رکھ دیا، وہی ایکس جو چند دن پہلے تک اپنی سائیکل کے گرد دیوانہ وار پھرتا تھا اب اُس کے پاس بھی نہ پھٹکتا تھا، اسے لگتا تھا کہ اگر زندگی میں سپورٹس سائیکل نہ لی تو کچھ بھی نہ کیا۔ ابا سے فرمایش کرنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی، کس منہ سے کہتا کہ دوبارہ سائیکل لے کر دیں۔ لیکن بندہ چونکہ ذہین تھا اِس لیے اُس نے اپنے مسئلے کا حل نکال لیا۔ اُس کی سائیکل تقریباً نئی تھی، اسی قیمت پر بک گئی، ماں کی منت سماجت کرکے کچھ پیسے لیے اور اپنے لیے نئی سپورٹس سائیکل خرید لی۔ اُس دن ایکس کویوں لگا جیسے اُس نے دنیا ہی فتح کر لی ہو۔ ’اب مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ‘ ایکس نے دل میں سوچا۔ اور پھر واقعی کافی عرصے تک اسے کسی نئی چیز کی خواہش نہیں ہوئی۔ سکول کے بعد جب ایکس کا داخلہ مقامی کالج میں ہوا تو اُس وقت تک سپورٹس سائیکل پرانی ہو چکی تھی۔ وہ چند ہفتوں تک اُس پر کالج جاتا رہا مگر اُس نے محسوس کیاکہ سائیکل پر کالج جانا کوئی مناسب بات نہیں، اُس کے کئی ہم جماعت موٹر سائیکل پر کالج آتے تھے اور اُن کا انداز بالکل کسی فلمی ہیرو جیسا ہوتا۔ اُس نے پھر ابا سے فرمایش کی، بات چونکہ معقول تھی، بچہ جوان ہو چکاتھا اِس لیے ابا نے بیٹے کو موٹر سائیکل لے دی۔ ایکس کو یوں لگا جیسے اسے دنیا میں ہی جنت مل گئی ہو۔

وقت گذرتا رہا۔ ایکس کالج سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں آ گیا۔ موٹر سائیکل کی جگہ آٹھ سو سو سی سی کی گاڑی نے لے لی۔ یہ گاڑی لینا اُس کا خواب تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا تھا کہ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں جن کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے اور وہ جب دل چاہے اُس گاڑی کو سٹارٹ کرکے کہیں بھی نکل جاتے ہیں۔ جس دن ایسی آزادی نصیب ہو گئی، اُس دن سمجھو مزید کسی چیزکی تمنا نہیں رہے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی گاڑی اور اُس کے بعد جدید ماڈل کی آٹو میٹک گاڑی بھی ایکس نے خریدی۔ وہ کچھ عرصے تک تو اپنی نئی چیز کے خمار میں رہتا مگر اُس کے بعد بیزار ہو جاتا، اسے یوں لگتا جیسے اُس کے پاس جو چیز ہے اُس کے کہیں بہتر چیز دوسروں کے پاس ہے اور جب تک وہ حاصل نہیں ہو گی، زندگی میں لطف نہیں آئے گا۔ اسی دوران اُس نے ایک درمیانے درجے کی سوسایٹی میں مکان بنالیا، دوستوں نے بہت تعریف کی، مبارکباد دی کہ ایکس اُن سے پہلےمکان بنانے والوں کی صف میں شامل ہوگیاہے، ایکس نے دل میں سوچا کہ واقعی یہ بڑی کامیابی ہے کیونکہ ابھی اُس کے کسی دوست نے ذاتی مکان نہیں بنایا تھا۔ لیکن پھر اُس کی ملاقات کالج کے زمانےکے ایک دوست سے ہوئی، اُس کا تعلق کسی جاگیردار گھرانے سے تھا، اُس نے ایکس کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔ ایکس نے اُس کا گھر دیکھاتو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ایک گھر کسی محل سے کم نہیں تھا۔

ایکس نے دل میں سوچا کہ اگر زندگی میں ایسا گھرنہ بنایاتو کچھ بھی نہ کیا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ایکس بے حد ذہین، کائیاں اور محنتی آدمی تھا، ایک مرتبہ جو کرنے کی ٹھان لیتا پھر اسے پورا کرکے دم لیتا۔ دو چارسال کی محنت کے بعد اُس نے شہر کی سب سے بہترین ہاؤسنگ سوسایٹی میں شاندار مکان بنا لیا۔ دوستوں، رشتہ داروں نے اُس کی کامیابی کو رشک و حسدکے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھا۔ اُس جاگیر دار ہم جماعت نےبھی گھر آ کر مبارکباد دی۔ ایکس خوشی سے جھوم اٹھا اور کئی ماہ تک جھومتا رہا مگر اُس کی یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی جب اسے پتا چلا کہ اُس کے ہم زلف نے برطانیہ کی شہریت لے لی ہے اور وہ مع اہل و عیال لندن منتقل ہو رہا ہے۔ وہ لوگ الوداعی ملاقات کرنے ایکس کے گھر آئے اور بتایاکہ کیسے انہو ں نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرکے شہریت حاصل کی ہے۔ اب وہ اور اُن کے بچے لندن میں رہیں گے، اچھے اور محفوظ ماحول میں پروروش پائیں گے، اعلی ٰ پائے کی زندگی کا بھرپور لطف اٹھائیں گے اور اِس ملک کی آلودہ زندگی سے اُن کی جان چھوٹ جائےگی۔ وہ لوگ تو یہ باتیں کرکے چلے گئے مگر ایکس ایک مرتبہ پھر مرجھا کر رہ گیا۔ اُس نے سوچا کہ اِس ملک میں چاہے جیسا بھی شاندار گھر بنالو، وہ اندازِ زندگی نہیں مل سکتا جو یورپ اور برطانیہ میں ہے۔ اُس نے دل میں سوچا کہ بس آخری مرتبہ محنت کرکے برطانیہ کی امیگریشن حاصل کرلینی چاہیے، پھر زندگی میں چین ہی چین ہوگا۔

لیکن افسوس کہ ’آخری مرتبہ محنت ‘کرنے کی نوبت نہ آسکی۔ ایک روز اچانک ایکس کو دل کو دور ہ پڑا، بندہ چونکہ ابھی چالیس کے پیٹے میں ہی تھا، اِس لیے د ل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ میں جب اسے قبر میں اتاررہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایکس قبر میں بھی فرشتوں کو کہے کہ’ اگر اسے ساتھ والے مردے کی کشادہ قبر الاٹ کر دی جائے تو میں مزید کوئی فرمایش نہیں کروں گا۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments